سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(296) تقسیم ترکہ کے دو مسائل

  • 20557
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 769

سوال

(296) تقسیم ترکہ کے دو مسائل

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن و سنت کی روشنی میں درج ذیل صورتوں میں تقسیم ترکہ کیسے ہو گا؟ (الف) اگر ورثاء میں بیوی ، والدین اور تین بھائی ہوں، (ب) اگر ورثاء میں خاوند ، ماں، باپ ، دو بھائی اور تین بہنیں ہوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بشرط صحت سوال واضح ہو کہ انسان کے فوت ہو نے کے بعد سب سے پہلے اس کے ترکہ سے اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین کی جائے ، پھر قرضوں کی ادائیگی کا مرحلہ آ تا ہے، اس کے بعد وصیت کے نفاذ کا درجہ ہے، بشرطیکہ وصیت کسی حصہ لینے والے وارث اور نا جائز کام کیلئے نہ ہو، اس کے علاوہ کسی صورت میں ۳/۱ سے زائد نہ ہو، ان تمام مراحل سے گزر نے کے بعد ترکہ تقسیم کیا جا تا ہے، اس وضاحت کے بعد سوال میں ذکر کر دہ صورتوں کے متعلق تقسیم ترکہ حسب ذیل طریقہ کے مطابق ہو گا۔

(الف)  چونکہ مرحوم کی اولاد نہیں ہے اس لیے بیوی کو کل ترکہ سے ۴/۱ حصہ دیا جائے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو بیویوں کو تمہارے ترکہ سے ۴/۱ ملتا ہے۔ ‘‘[1] ان دونوں کا حصہ نکال کر باقی باپ کو دیا جائے کیونکہ اس صورت میں اگر چہ بھائی بھی عصبہ ہیں لیکن باپ کا درجہ قریب تر ہے، اس لیے باپ کی موجودگی میں بہن بھائی محروم ہوں گے، اب بیوی کا 4/1 + ماں کا 6/1 =12/5 باقی7/12باپ کا ہے ، تفصیلی تقسیم اس طرح ہو گی :

بیوی:4/1                ماں : 6/1                 باپ: 12/7              تین بھائی محروم

سہولت کے پیش نظر کل جائیداد کے ۱۲ حصے کر لیے جائیں ، ان میں ۳ بیوی کو ۲ ماں کو اور ۷ باپ کو دے دیے جائیں، اس صورت میں ۳ بھائی محروم ہیں، ان کو اپنے بھائی کے ترکہ سے کچھ نہیں ملے گا۔ (واللہ اعلم)

(ب) چونکہ مرحومہ کی اولاد نہیں ہے، اس لیے خاوند کو ۲/۱ دیا جائے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’اگر بیویوں کو اولاد نہیں ہے تو تمہیں ان کے ترکہ سے ۲/۱ دیا جائے گا۔‘‘ [2] مرحومہ کے دوبھائی اور تین بہنیں موجود ہیں، ان کے ہو تے ہوئے ماں کا حصہ کم ہو کر ۶/۱ رہ جا تا ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر میت کے متعدد بہن بھائی ہوں تو ماں کو چھٹا حصہ ملتاہے۔ ‘‘[3]

لیکن بہن بھائی محروم ہوں گے البتہ وہ ماں کے حصے پر اثر انداز ہوں گے ، پھر خاوند اور ماں کا حصہ نکال کر باقی ترکہ باپ کو دیا جائے گا کیونکہ اولاد کی عدم موجودگی میں وہ عصبہ بنتا ہے اور باقی ترکہ کا حقدار ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر میت کی اولاد نہیں ہے تو اس کے ترکہ کے وارث اس کے والدین ہیں۔‘‘[4]

مرحومہ کے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں لیکن باپ کی موجودگی میں انہیں کچھ نہیں ملےگا۔

جیسا کہ سورۃ النساء آیت نمبر ۱۷۸ سے اشارہ ملتا ہے ، اب خاوند کا حصہ کا              2/1 + ماں کا حصہ 6/1 = 3/2  باقی 3/1 باپ کا ہے، تفصیلی تقسیم اس طرح ہے۔ خاوند :2/1 ماں : 6/1  باپ : 3/1

کل جائیداد کے ۶حصےکر لیے جائیں ۳خاوند کو ، ایک ماں کو اور ۲باپ کو دے دیے جائیں، بہن بھائی والدین کی موجودگی میں محروم ہیں۔ (واللہ اعلم)


[1] النساء:۱۲۔

[2] النساء:۱۲۔

[3] النساء :۱۱۔

[4] النساء :۱۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:275

محدث فتویٰ

تبصرے