السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں لو گوں کی اشیا اجرت لے کر فروخت کر تاہوں ، کیا شریعت میں اس طرح کا کاروبارجائز ہے۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ کمیشن پر مال فروخت کرنا جائز نہیں، اس سلسلہ میں ہماری راہنمائی کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
طے شدہ اجرت پر کسی کا مال فروخت کرنا جائز ہے بشرطیکہ فریقین راضی ہوں اور کسی کے ساتھ دھوکہ ، فراڈ اور کذب بیانی نہ کی جائے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :’’دلالی کی اجارت لینا‘‘[1]
نیز فرمایا کہ حضرت ابن سیرین، حضرت عطا بن ابی رباح، ابراہیم نخعی اور امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہم دلالی پر اجرت لینے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ نیز ایک حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں ’’دلالی ‘‘ ایک با قاعدہ ادارے کے طور پر موجود تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے ختم نہیں فرمایا۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہم تاجروں کو ’’سماسرہ‘‘ یعنی دلال کہا جا تا تھا، ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس سے گزرے تو ہمیں اس سے بہتر نام سے یاد فرمایا:’’اے تاجروں کی جماعت!‘‘ [2]
آپ نے دلالی کو ختم نہیں کیا بلکہ ان نقائص کی اصلاح فرمائی جو اس کاروبار میں موجود تھے ،آپ نے فرمایا کہ کاروبار میں بہت سی باتیں بے جا اور لغو ہوتی ہیں نیز قسمیں بھی کھائی جاتی ہیں، اس کی تلافی صدقہ و خیرات سے کر دیا کرو۔[3]
اس کے علاوہ شہروں میں بڑے پیمانے پر اشیا ئے صرف دور دراز علاقوں سے آتی ہیں اور مال کے ساتھ تاجر موجود نہیں ہو تا، اگر ہو تا بھی ہے تو وہ سارا مال خود نہیں بیچ سکتا یا مقامی تجارتی پارٹیوں کے قابل اعتبار ہونے یا نہ ہو نے کے متعلق اسے علم نہیں ہو تا، ایسے حالات میں اُس کے لیے مقامی ایجنٹ حضرات کی خدمات انتہائی ضروری ہیں بصوت دیگر وہ اپنا مال منڈی میں نہیں بیچ سکےگا۔ اس لیے دلالی کے کاروبار کو ختم نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دلالوں کے کاروبار کو ختم کرنے کا حکم دیا۔ البتہ ایک حدیث سے اس کی ممانعت معلوم ہو تی ہے ، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شہری کو دیہاتی کے لیے خرید و فروخت کرنے سے منع فرمایا ہے۔کسی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کی وضاحت طلب کی تو آپ نے فرمایا کہ کوئی شہری کسی دیہاتی کے لیے دلال نہ بنے۔[4]
اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ دلالی کا کاروبار جائز نہیں لیکن ہمارے رجحان کے مطابق اس کا مطلب یہ ہے کہ شہر کے ارد گرد اور آس پاس کے لوگ اگر اپنی اپنی زرعی پیدا وار شہر میں بیچنے کے لیے لاتے ہیں تو ان کے درمیان مداخلت نہ کی جائے تاکہ وہ ان اشیا کی خرید و فروخت فطری طریقے سے جاری رکھیں اور فریقین کو اس سے مستفید ہونے کا موقع دیا جائے۔ البتہ دوسرے علاقوں سے آنے والے شہری تاجر، ان ایجنٹ حضرات کی خدمات سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
نا جائز دلالی کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اگر دھوکہ، فراڈ اور کذب بیانی والی دلالی ہو تو حرام اور ناجائز ہے اور اگر یہ برائیاں نہ ہوں بلکہ مفاد اور خیر خواہی مطلوب ہو نیز فریقین راضی ہوں تو جائز ہے بشرطیکہ اس کی شرح پہلے سے طے ہو اور اشیا ئے صرف سے دلال حضرات عمدہ مال اپنے لیے نہ رکھیں جیسا کہ آج کل منڈیوں میں ہو تاہے۔
[1] صحیح بخاری، الاجارات، باب :۱۴۔
[2] ابو داؤد، البیوع:۳۳۲۶۔
[3] نسائی، الایمان:۳۸۲۸۔
[4] بخاری، الاجارہ: ۲۲۷۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب