السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اکثر کہا جا تا ہے کہ آج ہر شخص شعوری یا لا شعوری طور پر سودی معاملات میں ملوث ہے ، براہ کرم ہمیں ایسے معاملات سے آگاہ کریں جو سود پر مبنی ہیں تاکہ ہم ان سے بچنے کی کوشش کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے معاشرے میں حرص ، طمع اور لالچ نے اس قدر جڑیں مضبوط کر رکھی ہیں کہ ہم باہمی لین دین کے معاملات میں افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ غالباً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے حالات کے متعلق ہی بطور پیشین گوئی فرمایا تھا:’’ لوگوں پر ایسا وقت آنے والا ہے کہ انسان اپنی روزی کے متعلق حلال و حرام کی پروا نہیں کرے گا۔ ‘‘[1]
حرام کمائی کی ایک سنگین صورت سود کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’لو گوں پر وہ وقت آنے والا ہے کہ وہ بلا دریغ سود کو استعمال کریں گے، عرض کیاگیا کہ آیا سب لوگ اس وبا میں مبتلا ہوں گے ؟آپ نے فرمایا:’’ جو سود نہیں کھائے گا، اسے سود کا غبار ضرور اپنی لپیٹ میں لے لے گا۔ ‘‘[2]
اس حدیث کی روشنی میں جب ہم اپنے گرد و پیش کا جائزہ لیتے ہیں تو پوری دنیا کے لو گوں میں سود کچھ اس طرح سرایت کر گیا ہے کہ اگر کوئی مسلمان پوری نیک نیتی کے ساتھ سود سے بچنا چاہے تو اسے کئی ایک مقامات پر الجھن پیش آتی ہے۔ مثلاً:
1 سرکاری و غیر سرکاری اداروں میں ملازمین کو ملنے والے جی پی فنڈ میں سود کا عنصر شامل ہو تا ہے۔
2 کاروباری حضرات بینک سے تعلق رکھے بغیر اپنا مال بر آمد یا در آمد نہیں کر سکتے جہاں سودی کاروبار کھلے عام ہوتا ہے۔
3 بینک کے شراکتی کھاتوں میں ’’ مارک اَپ‘‘ کی حسین اصطلاح سود ہی کا متبادل نام ہے ، نام تبدیل کرنے سے حقیقت نہیں بدلتی۔
4 بینک کے چالو کھاتے میں رقم جمع کرانے پر بینک سے گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون کیا جا تا ہے کیونکہ بینک ہماری رقم کو استعمال ضرور کرتا ہے۔
5 ہمارے ہاں بیمہ کمپنیاں جو مختلف صورتوں میں تعاون پیش کر تی ہیں، اس میں سود، جوا اور دھوکہ بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے ، آج کل اسے تکافل کا خوبصورت نام دیا گیا ہے ۔
6 پرائز بانڈز پر ملنے والے انعامات بھی در اصل سود اور جوئے کے پر کشش نام ہیں، یہ کاروبار آج کل بہت عروج پر ہے۔
7 مکانات کی تعمیر میں جو ہاؤس فنانس سکیم سے تعاون ملتا ہے اس پر کرایہ کے نام سے سود ہی وصول کیا جا تا ہے۔
الغرض سودی دھندا کرنے والے ہر طرف پھیلے ہوئے ہیں اور انھوں نے پھنسانے کے لیے ہم رنگ زمین جال بچھا رکھے ہیں، ان سے بچاؤ کی صورت اگر نا ممکن نہیں تو مشکل ضروری ہے، ہمیں ان سے بچنے کی بھر پور کوشش کرنا چاہے۔
[1] نسائی، البیوع:۵۴۵۹۔
[2] مسند امام احمد ص۴۹۴،ج۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب