السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ہاں رائج کرنسی نوٹ پر یہ عبارت لکھی ہوتی ہے کہ ’’بینک دولت پاکستان ایک ہزار روپیہ حامل ہذاکومطالبہ پر ادا کرے گا۔ ‘‘ اس عبارت کا مطلب یہ معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ ہزار روپے کا نوٹ ایک رسید ہے، اس کی ذاتی حیثیت کچھ نہیں ، اس کے متعلق وضاحت کریں کہ اس کی شرعی حیثیت کیاہے، آیا یہ رسید ہے یا واقعی ہزار روپیہ ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
کاغذی نوٹ پر کئی ایک ادوار گزرے ہیں، پہلے اس کے پیچھے مکمل طور پر سونا ہو تا تھا پھر ایک وقت آیا کہ اس کے پیچھے مکمل طور پر تو سونا نہیں ہو تا تھا لیکن ایک مخصوص تعداد میں سونا ضرور ہو تا تھا ، اس کے بعد کرنسی نوٹ کو ڈالر سے وابستہ کر دیا گیا اورڈ الر سونے سے وابستہ تھا۔ ۱۹۷۱ءکے بعد امریکہ نے بھی سونا دینے سے انکار کر دیا، اب ہمارے ہاں رائج کرنسی کے پیچھے کوئی چیز نہیں۔ نوٹ پر لکھی ہوئی عبارت ’’حامل ہذا کو عند الطلب اتنے روپے ادا کیے جائیں گے ‘‘ بے معنی اور بے حقیقت ہے۔ اب یہ نوٹ محض آلہ تبادلہ کا کام دیتے ہیں، ایسی صورت حال کے پیش نظر اس کاغذی نوٹ کے متعلق حسب ذیل دو تشریحات کی جاتی ہیں:
1 یہ نوٹ سند حوالہ اور ایک رسید کی حیثیت رکھتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو یہ نوٹ دیا جا تا ہے ، اس کی یہ رقم جو نوٹ پر لکھی ہو تی ہے بینک دولت پاکستان کے ذمے ایک قرض ہے یعنی جو شخص ہزار روپے کےنوٹ کے ذریعے جو چیز خریدتا ہے وہ دوکاندار کو بینک پر حوالہ کرتا ہے کہ بینک کے ذمے جو میرا قرض ہے وہ اس نوٹ کی وساطت سے بینک سے وصول کرے۔ اس کا مطلب یہ ہےکہ یہ نوٹ خود مال نہیں بلکہ مال کی ایک رسید ہے۔
2 دوسری رائے یہ ہے کہ کرنسی نوٹ کو زر اصطلاحی اور ثمن عرفی قرار دیا جائے یعنی اس کاغذی نوٹ کی اگرچہ ذاتی کوئی قدر و قیمت نہیں لیکن اصطلاحی طور پر اسے مخصوص مالیت کا آلہ تبادلہ قرار دے دیا گیا ہے ۔ اب ان کاغذی نوٹوں کی با قاعدہ رسیدیں جاری کی جا تی ہیں مثلاً چیک اور ڈرافٹ وغیرہ بنائے جاتے ہیں جو ان کرنسی نوٹوں کی رسیدیں ہوتی ہیں۔ اب زکوۃ کے وجوب اور اس کی ادائیگی کے مسئلہ میں ان کاغذی نوٹوں کا حکم سونے چاندی کے حکم کی طرح ہے، اب جو شخص نصاب کے بقدر ان نو ٹوں کامالک بن جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس پر زکوۃ واجب ہو جائے گی۔
ہمارا ذاتی رجحان اس دوسری رائے کی طرف ہے، چنانچہ احمد عبد الرحمن البنا الساعاتی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
’’میرے نزدیک صحیح بات جس پر میں اللہ کے حضور جوابدہ ہوں وہ یہ ہےکہ زکوۃ کے وجوب اور اس کی ادائیگی کے مسئلہ میں ان کاغذی نوٹوں کا حکم بھی بعینہٖ سونے چاندی کے حکم کی طرح ہے۔ اسی لیے لو گوں میں ان نو ٹوں کا لین دین بالکل اسی طرح جاری ہے جس طرح سونے چاندی کا لین دین رائج ہے اور نوٹوں کے مالک کو اس کا بالکل اختیار ہے کہ جس طرح چاہے ان کو خرچ کرے اور ان کے ذریعے اپنی ضروریات کو پورا کر ے۔ لہٰذا جو شخص نصاب کے مقدار ان نو ٹوں کا مالک بن جائے اور اس پر سال گزر جائے تو اس پر زکوۃ واجب ہو جائےگی۔ ‘‘[1]
جن حضرات نے انہیں سند حوالہ یا رسید قرار دیا ہے وہ ان کی پہلی حالت کے پیش نظر ہے ، موجودہ صورت حال کے پیش نظر یہ رسید نہیں بلکہ ثمن عرنی کی حیثیت سے متعارف ہو چکے ہیں۔
[1] الفتح الربانی، ص ۲۵۱، ج ۸۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب