السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میرے ایک دوستے کے والد بینک میں ملازم ہیں جبکہ میرا دوست کسی کمپنی میں کام کرتا ہے، وہ دونوں باپ بیٹا اپنی کمائی سے گھر کے اخراجات پورے کرتے ہیں، ایسے حالات میں میرے دوست کے لیے شرعی حکم کیا ہے ، کیا وہ اپنی کمائی والد کی آمدنی سے الگ کرے یا اسی طرح گھر کا نظام چلتا رہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سودی کاروبار میں ملوث ہونے کی بنا پر بینک کی ملازمت جائز نہیں اور نہ ہی اس سے ملنے والی کمائی حلال اور پاکیزہ ہے۔ سودی کاروبار اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ لڑنے کے مترادف ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’اے ایمان والو!اللہ سے ڈر جاؤ اور اگر تم ایمان رکھتے ہو تو جتنا سود باقی رہ گیا ہے اس کو چھوڑ دو، اگر ایسا نہیں کرو گے تو خبر دار ہو جاؤ کہ تم اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کر نے کے لیے تیار ہو تے ہو۔ ‘‘[1]
اس قسم کے رزقِ حرام کے بہت سے نقصانات ہیں، جن میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ رزق حرام استعمال کرنے والے کی نیکیاں قبول نہیں کر تا اور اگر رزق حلال میں حرام کی ملاوٹ ہو جائے تو اس قسم کی کمائی استعمال کرنے سے بھی نیکیاں برباد ہو جا تی ہیں۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اگر ایک شخص دس درہم کا کپڑا خریدتا ہے اور اس میں ایک درہم حرام کی کمائی کا شامل کر لیتا ہے جبکہ باقی نو درہم حلال کے ہیں تو اللہ رب العزت اس کے ایک بار لباس پہننے سے چالیس دن تک اس کی کوئی نیکی قبول نہیں کرے گا۔ ‘‘[2]
اس حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ حلال رزق میں حرام کی ملاوٹ کس قدر خطر ناک امر ہے اگرچہ غلبہ حلال کا ہو اس کی کوئی نیکی قبول نہیں ہوتی۔ لیکن جس کا تمام سرمایہ حرام کا ہو اور اس کی معیشت کی بنیاد ہی رزق حرام ہو، اس کا انجام کیا ہو گا؟
صورت مسؤلہ میں ہم آپ کے دوست کو نصیحت کر تے ہیں کہ وہ اپنے والد گرامی کو اچھے انداز سے رزق حرام کی سنگینی کے متعلق آگاہ کرتا رہے ، اگر وہ شادی شدہ ہے تو کسی خاص حکمت عملی کو اختیار کر لے لیکن والدین کی خدمت اور حسن سلوک میں کمی نہ آنے دے اور اگر شادی شدہ نہیں تو اپنے والد کے ساتھ ہی رہے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا رہے کہ وہ رزق حرام سے بچنے کی کوئی سبیل پیدا فرمائے۔ (واللہ اعلم)
[1] البقرة: ۲۷۸۔۲۷۹۔
[2] مسند احمد: ص۹۸،ج۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب