السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مجھے بینک میں ملازمت مل رہی ہے جب کہ میرے ایک دوست نے کہا ہے کہ بینک میں ملازمت شرعاً جائز نہیں ہے ۔ اس کے متعلق میری راہنمائی فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بینک خواہ ’’اسلامی ‘‘ ہوں یا غیر اسلامی، ان کی بنیاد سودی کاروبار پر ہے اور سودی لین دین اللہ اور اسکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کھلی جنگ ہے جیسا کہ قرآن کریم میں ہے:’’اے ایمان والو ! اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہو اور اگر واقعی تم مومن ہو تو جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو، اگر تم نے ایسا نہ کیا تو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘ [1]
احادیث میں بھی اس کے متعلق سخت وعید آئی ہے۔ چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سود کھانے والے ، کھلانے والے ، لکھنے والے اور اس کے دونوں گواہوں پر لعنت فرمائی ہے۔[2] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے:’’یہ سب گناہ میں برابر کے شریک ہیں(حوالہ مذکور)لہٰذا ایک با غیرت مسلمان کو چاہیے کہ وہ بینک کی ملازمت سے اجتناب کرے خواہ وہ درجہ چہارم میں ہی کیوں نہ ہو۔
بعض روشن خیال حضرات کا خیال ہے کہ قرآن کریم نے جس سود کو حرام کیا ہے وہ مہاجن قرضہ ہے اس پر سود لینا حرام ہے لیکن جو صنعتی قرضے ہیں یا جو تجارت کے لیے قرضہ لیا جائے، اس پر سود لینا دینا حرام نہیں ہے بلکہ تجارتی سود اس سے مستثنیٰ ہے ، حالانکہ اس استدلال کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔ قر آن کریم نے علی الاطلاق ربا کو حرام قرار دیا ہے خواہ وہ تجارت کےلیے ہو یا ذاتی ضروریات کے لیے ہو، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدمبارک میں بھی تجارتی سود رائج تھا، چنانچہ حرمت سے قبل حضرت عباس رضی اللہ عنہ تجارتی سود کا لین دین کر تے تھے۔
بہر حال ہمارے رجحان کے مطابق بینک میں ہر طرح کی ملازمت نا جائز ہے ، اس کے علاوہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’گناہ اور سر کشی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون نہ کرو۔ ‘‘[3]
اس آیتِ کریمہ کا بھی تقاضا ہے کہ بینک کی ملازمت نہ کی جائے کیونکہ بینک میں ملازمت کرنا سودی کاروبار میں تعاون کرنے کے مترادف ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] البقرة: ۲۷۹۔
[2] صحیح مسلم، البیوع:۴۰۹۳۔
[3] المائدہ :۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب