سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(266) بیعانہ کی شرعی حیثیت

  • 20527
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 4740

سوال

(266) بیعانہ کی شرعی حیثیت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 خرید و فروخت کر تے وقت جب سودا طے کر لیا جا تا ہے تو خریدار، فروخت کنندہ کو کچھ رقم موقع پر ادا کر دیتا ہے تاکہ فروخت کنندہ اس چیز کوآ گے فروخت نہ کرے، اس وقت فریقین یہ شرط طے کر تے ہیں کہ اگر خریدار نے بقیہ رقم ادا کر کے یہ چیز اپنے قبضہ میں نہ لی تو اس کی پیشگی ادا کر دہ رقم ضبط کر لی جائے گی اور اگر فروخت کنندہ اس سے منحرف ہوا تو اسے پیشگی رقم کا دوگنا ادا کرنا ہو گا ، اس طرح جو رقم پہلے ادا کی جا تی ہے اسے بیعانہ کہتے ہیں، اس خرید و فروخت کی شرعی حیثیت کیا ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اس شرط پر خرید و فروخت کرنا کہ اگر بقیہ رقم ادا کر کے چیز کو اپنے قبضہ میں نہ لیا گیا تو پیشگی دیا ہو ابیعانہ مار لیا جائے گا، جائز نہیں ہے ۔ اس قسم کی خرید و فروخت کو شرع نے حرام قرار دیا ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیع عربان سے منع فرمایا ہے۔[1]حدیث میں بیع عربان کی وضاحت بایں طور کی گئی ہے کہ آدمی کسی چیز کا سودا کرے اور فروخت کنندہ کو کچھ رقم پیشگی ادا کر کے کہے ’’اگر میں نے یہ چیز لے لی تو ٹھیک بصورت دیگر ادا کر دہ پیشگی رقم تیری ہو گی ۔ ‘‘ اس قسم کی خرید و فروخت کے متعلق اگرچہ فقہا کا اختلاف ہے تاہم ہمارا رجحان یہ ہے کہ نا جائز شرط اور دھوکے کی وجہ سے اس قسم کی خرید و فروخت ناجائز اور حرام ہے اور یہ کسی کا مال نا جائز طریقہ سے کھانے میں شامل ہے۔ نیز بیع فسخ ہو نے کی صورت میں بیچنے والا جو رقم ضبط کر تا ہے اس کے عوض وہ خریدار کو کوئی مال یا فائدہ مہیا نہیں کر تا اور بغیر معاوضے کے کسی کا مال لینا جائز نہیں۔ علاوہ ازیں کسی معقول وجہ کی بنیاد پر بیع واپس لینا ثواب کا کام ہے ، جیسا کہ حدیث میں ہے :’’جو شخص کسی مسلمان کی بیع واپس کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے گناہ معاف فرما دے گا۔ ‘‘[2] اس حدیث کی سند کو علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح قرار دیا ہے۔ [3]

لیکن بیعانہ کی شرط اس لیے عائد کی جا تی ہے کہ خریدار ، خریدی ہوئی چیز واپس نہ کر دے، اگر ایسا کر تا ہے تو اس کی پیشگی ادا کر دہ رقم ضبط کر لی جا تی ہے ، ایسا کرنا نیکی سے پہلو تہی ہے جسے کسی بھی صورت میں اچھا نہیں کہا جا سکتا، لیکن یہ بھلے وقتوں کی بات ہے جب لوگ سادہ مزاج اور امانت دار تھے، اب ہمارے اس پُر فتن دور میں جھوٹ ، فریب، دغا بازی، ہوشیاری اور چالاکی لو گوں کے رگ و ریشہ میں رچی بسی ہے ، اکثر طور پر اس سلسلہ میں درج ذیل صورتیں سامنے آ تی ہیں:

1             ایک آدمی کسی سے تین ماہ تک رقم کی ادائیگی پر کوئی چیز خرید لیتا ہے اور فروخت کنندہ کو زر بیعانہ بھی ادا کر دیتا ہے تاکہ وہ اس چیز کو آگے فروخت نہ کرے لیکن ایک ماہ بعد اس چیز کا بھاؤ چڑھ جاتا ہے ، اتفاق سے اسے کوئی گاہک بھی میسر آ جا تا ہے ، وہ اپنے پہلے وعدے سے منحرف ہو کر دوسرے گاہک کو چیز فروخت کر دیتا ہے اور زر بیعانہ دوگنا کر کے پہلے شخص کو ادا کر دیتا ہے، اس کے باوجود اسے بچت ہو جا تی ہے۔

2             بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہےکہ کوئی تیسرا آدمی خریدار کو خراب کرنا چاہتا ہے ، وہ فروخت کنندہ کے پاس آ کر کہتا ہے کہ تم اتنی قیمت میں وہ چیز مجھے دے دو، میں تمہیں پہلے خریدار کا زر بیعانہ بھی ادا کر دیتا ہوں حالانکہ پہلے خریدار کو وہی چیز اس سے ارزاں نرخ پر ملتی تھی لیکن وہ اپنے وعدے پر قائم ہے، اس طرح خریدار کو نقصان ہوتا ہے ۔

3             ایک آدمی نے کسی دوسرے شخص کو کوئی چیز فروخت کی ، دو تین ماہ تک اس کی قیمت وصول کر نے کی شرط کر لیتا ہے اور خریدار سے کچھ زر بیعانہ بھی وصول کر لیتا ہے ، اس دوران خریدار کو وہی چیز کسی دوسرے سے ارزاں قیمت پر مل جا تی ہے تو وہ اپنے زر بیعانہ کی پر وا کیے بغیر اپنے وعدے سے منحرف ہو کر کسی دوسرے شخص سے وہ چیز خرید لیتا ہے۔

4             بعض اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ کوئی تیسرا آدمی فروخت کار کو خراب کرنا چاہتا ہے ، وہ خریدار کے پاس آ کر کہتا ہے کہ میں تجھے وہی چیز اس سے ارزاں قیمت پر مہیا کر تا ہوں، تم اپنا زر بیعانہ میرے کھاتے میں ڈال کر مجھ سے وہ چیز خرید لو، اس طرح وہ اپنے وعدے سے منحرف ہو جا تا ہے حالانکہ فروخت کنندہ کو اس دوران فروخت کر دہ چیز کی زیادہ قیمت ملتی تھی، لیکن وہ اپنے وعدے پر قائم رہا، اس طرح فروخت کنندہ کو نقصان ہو تا ہے۔

ایسے حالات میں کیا کیاجائے ؟ آیا خریدار یا فرخت کار کو اس طرح دھوکہ، فراڈ اور ایک دوسرے پر ظلم و زیادتی کرنے کی کھلی چھٹی دے دی جائے یا ان کا کوئی با عزت حل نکالا جائے تاکہ مظلوم اور ستم زدہ انسان کے نقصان کی کچھ نہ کچھ تلافی ہو۔ حالات کے تبدیل ہو نے سے احکام بھی بدل جا تے ہیں، ہمارے رجحان کے مطابق ایسے حالات میں جب ایک دوسرے پر ظلم ہو رہا ہو ، خریدار کا بیعانہ ضبط ہونا چاہیے ، اسی طرح فروخت کنندہ سے دو گنا زر بیعانہ وصول کیا جا سکتا ہے۔ ہاں اگر کسی مجبوری کی وجہ سے سودا فسخ کرنا پڑے تو فریقین کو فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : ’’اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو فروخت کر تے وقت نرمی کر تاہے ، خریدتے وقت نرمی کر تا ہے اور جب تقاضا کر تاہے تو بھی نرمی کر تا ہے۔[4]  فروخت کار کی نرمی یہ ہے کہ اگر خریدار اپنی کسی مجبوری کی وجہ سے سودا فسخ کرنا چاہے تو وہ اس کا زر بیعانہ فراخ دلی کے ساتھ واپس کر دے ۔، ’’بحق نقصان‘‘ ضبط نہ کرے، اسی طرح خریدار کی طرف سے نرمی یہ ہے کہ اگر حالات سے مجبور ہو کر فروخت کنندہ اس بیع کو ختم کرنا چاہے تو فراخدلی کے ساتھ اس سودے کو ختم کر دے اور اس سے دو گنا زر بیعانہ کا مطالبہ نہ کرے بلکہ صرف اپنی دی ہوئی رقم ہی واپس لے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے کاروباری معاملات صحیح طریقہ سے چلانے کی توفیق دے۔ آمین


[1] ابن ماجه، التجا رات:۲۱۹۳۔

[2] ابو داؤد، البیوع:۳۴۶۰۔

[3] ارواء الغلیل ، حدیث نمبر ۱۳۳۴۔

[4] صحیح بخاری، البیوع:۲۰۷۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:247

محدث فتویٰ

تبصرے