سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(263) قبضہ سے پہلے چیز فروخت کرنا

  • 20524
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 870

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

منڈیوں میں خرید و فروخت کی اکثر یہ صورت سامنے آ تی ہے کہ آدمی کوئی چیز خریدتا ہے اور اسے مالک کے پاس ہی چھوڑ دیتا ہے ، اسی حالت میں اس کو آگے فروخت کر دیا جا تا ہے، کیا اس طرح خریدو فروخت کرنا جائز ہے، اگر نا جائز ہے تو کیوں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تمام فقہاءعظام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ کسی چیز کو خریدنے کے بعد اس پر قبضہ کر نے سے پہلے پہلے اسے فروخت کرنا نا جائز ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے اناج خریدا وہ اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک اسے ناپ تول کر پورا نہ کر لے۔‘‘[1]

ایک روایت میں وضاحت ہےکہ اسے اپنے قبضے میں لیے بغیر آگے فروخت نہ کرے۔[2]

اس حدیث میں اناج اور غلے کا حکم بیان ہوا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ کھانے کی اشیاکے علاوہ ہر چیز کا یہی حکم ہے۔[3]

بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے: ’’تم جب بھی کوئی چیز خریدو تو اُس پر قبضہ کیے بغیر آگے فروخت نہ کرو۔‘‘ [4]

امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کوبایں الفاظ بیان کیاہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس جگہ میں جہاں سے سامان خریدا ہے وہیں پر بیچنے سے منع فرمایا ہے، یہاں تک کہ تاجرحضرات اپنا سودا اٹھاکر اپنے اپنے گھروں میں لے جائیں۔[5] امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:

’’خریدی ہوئی چیز کو قبضے میں لینے سے پہلے فروخت کر نے کی ممانعت اس لیے ہے کہ خریدار ایسی صورت میں اسے قبضے میں لینے سے عاجز ہو تا ہے ، ممکن ہے فروخت کنندہ اس چیز کو اس کے حوالے کرے یا نہ کرے، خاص طور پر جب وہ دیکھ رہا ہو کہ خریدار کو اس سے بہت نفع ہو رہاہے تو وہ اس بیع کو ختم کر نے کی کوشش کرے گا، خواہ انکار کرے یا فسخ بیع کے لیے کوئی حیلہ تلاش کرے۔ ‘‘[6]

بہر حال آج کل منڈیوں میں جس طرح خرید و فروخت ہو تی ہے کہ ایک چیز خرید کر وہیں اسے آگے فروخت کر دیا جا تا ہے، خریدار اس پر قبضہ نہیں کر تا ، یا اصل مالک سے پر چی حاصل کر کے اسے فروخت کر دیا جا تا ہے، شرعی طور پر ایسا کرنا جائز نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] بخاری، البیوع:۲۱۲۶۔

[2] مسلم، البیوع:۱۵۲۵۔

[3] جامع ترمذی،البیوع:۱۲۹۱۔

[4] مسند امام احمد:ص۴۰۲،ج۲۔

[5] ابو داؤد،البیوع:۳۴۹۸۔

[6] اعلام الموقعین، ص۱۳۴،ج۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:244

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ