سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(260) مجبوری کے وقت سودی قرض

  • 20521
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 812

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میرے والد گرامی جیل میں ہیں، ان کی رہائی کے لیے ایک لاکھ روپیہ درکار ہے، اگر یہ رقم نہیں دی جا تی تو مزید دو سال قید بڑھ سکتی ہے ، میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے اور مجھے کوئی قرض بھی نہیں دیتا ، ایک شخص اس شرط پر قرض دینے کے لیے تیار ہے کہ تین سال کے بعد اسے دو لاکھ واپس کیے جائیں، کیا اس قسم کی مجبوری کے پیش نظر سود پر قرض لیا جا سکتا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سودی کاروبار یا لین دین اس قدر سنگین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسا کام کر نے والے کو سخت وارننگ دی ہے ، ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اگر تم اس سودی لین دین سے باز نہیں آؤ گے تو پھر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ ‘‘[1]

اور احادیث میں سود لینے اور دینے کو اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کر نے کے مترادف قرار دیا گیا ہے لہٰذا ایک مسلمان کے لیے صلی اللہ علیہ وسلم بہتر یہی ہےکہ وہ اسے کسی صور ت میں اختیار نہ کرے ، صورت مسؤلہ میں کوئی ایسا عذر نہیں جس کی بنیاد پر سود پر قرض لینے کو جائز قرار دیا جائے، جان بچانے کے لیے مر دار کھانے کی اجازت قرآن نے دی ہے ، لیکن صورت مسؤلہ کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا ۔

ہمارے رجحان کے مطابق کسی مالدار سے قرض لے کر اپنے باپ کی رہائی دلائی جا سکتی ہے لیکن اس رہائی کے لیے سود پر قرض لینا شرعاً درست نہیں ہے ، ایسی صورت میں بہتر یہی ہےکہ دو سال تک مزید قید بر داشت کر لی جائے لیکن اس حرام کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ (واللہ اعلم)


[1] البقرة: ۲۷۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:242

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ