سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(256) فوت شدہ روزوں کی قضا

  • 20517
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 781

سوال

(256) فوت شدہ روزوں کی قضا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فوت شدہ روزوں کی قضاکس طرح دی جائے ، کیا وقت ملنے پر فوراً رکھنے چاہئیں یا انہیں مؤخر بھی کیا جا سکتا ہے ۔ نیز انہیں مسلسل رکھنا ہو گا یا متفرق طور پر بھی انہیں رکھا جا سکتا ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

فوت شدہ روزوں کی قضا وقت ملنے پر فوراً ضروری نہیں ۔ کیونکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرما تی ہیں:’’ مجھ پر رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا ہو تی تھی لیکن میں ماہ شعبان میں انہیں رکھا کر تی تھی۔ ‘‘[1]

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:اس حدیث کے پیش نظر رمضان کے فوت شدہ روزوں کی قضا کو مؤخر کیا جا سکتا ہے یہ تاخیر کسی عذر کی بنا پر ہو یا کسی عذر کے بغیر تاخیر ہو ۔[2]

لیکن بہتر ہے کہ فوت شدہ روزوں کی قضا میں تاخیر نہ کرے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’یہی وہ لوگ ہیں جو بھلائی کے کاموں میں جلدی کر تے ہیں اور ان کی طرف دوڑ جا نے والے ہیں۔‘‘[3]

فوت شدہ روزوں کی قضا مسلسل ضروری نہیں کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

’’تو وہ دوسرے دنوں میں اس کی گنتی پوری کرے۔‘‘[4]

اللہ تعالیٰ نے فوت شدہ روزوں کی گنتی پورا کر نے کا حکم دیا ہے، ان میں تسلسل ضروری نہیں۔ چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’متفرق طور پر روزے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ۔‘‘[5]

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس معلق روایت کو صحیح سند کے ساتھ پیش کیا ہے۔[6]

حضرت انس رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ اگر چاہے تو انہیں مسلسل رکھ لے اور اگر چاہے تو متفرق طور پر رکھ لے۔ [7]

اس سلسلہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جو بیان کیا جا تا ہے کہ فوت شدہ روزوں کو مسلسل رکھنا چاہیے وہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں۔ (مغنی، ص ۴۳،ج۳)واللہ اعلم


[1] صحیح بخاری، الصوم:۱۹۵۰۔

[2] فتح الباری، ص۱۹۱، ج۴۔

[3] المؤمنون :۶۱۱۔

[4] البقرة: ۱۸۴۔

[5] بخاری تعلیقاً۔

[6] بیہقی، ص ۲۵۸، ج۴۔

[7] بیہقی، ص ۲۵۸، ج۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:237

محدث فتویٰ

تبصرے