سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(253) آیت کا مفہوم

  • 20514
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 853

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 قرآن کریم میں ہے ’’اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں ، وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں۔‘‘ (البقرۃ:۱۸۴) اس آیت کی رو سے تندرست اور طاقتور شخص کو روزہ رکھنے نہ رکھنے کا اختیار دیا گیا ہے ، جبکہ ہمارے ہاں معمول اس کے خلاف ہے، اس کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 فرضیت روزہ کے ابتدائی دور میں روزہ فرض تو تھا مگر کوئی شخص بلا عذر روزہ چھوڑنا چاہتا تو اسے اجازت تھی کہ روزہ نہ رکھے۔ لیکن اس صورت میں اسے فدیہ دینا پڑتھا تھا جیسا کہ ابن ابی لیلیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کے حوالے سے بیان کرتے ہیں :

’’جب رمضان کے روزے فرض ہو ئے تو انہیں بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، پھر اگر کوئی مالدار ہر روز ایک مسکین کو کھانا کھلا دیتا تو وہ روزہ نہ رکھتا، انہیں اس امر کی رخصت تھی۔ ‘‘[1]

لیکن اس کے بعد دوسری آیت اتری تو اس رخصت کو ختم کر دیا گیا جیسا کہ حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں:

جب یہ آیت اتری ’’اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ روزہ کے بدلے کسی محتاج کو کھانا کھلا دیں۔ ‘‘[2]

تو ہم میں سے جو شخص روزے نہ رکھنا چاہتا وہ فدیہ دے دیتا حتیٰ کہ اس کے بعد والی آیت اتری تو اس نے اس رخصت کو منسو خ کر دیا۔ ‘‘[3]

وہ آیت یہ ہے :(ترجمہ)’’تم میں سے جو شخص اس مہینے میں موجود ہو وہ لازماً روزہ رکھے۔ ‘‘اس آیت کریمہ کے ذریعے ہر تندرست اور گھر میں موجود شخص کے لیے روزہ رکھنا لازم ہو گیا ۔ البتہ یہ رخصت اس شخص کے لیے باقی ہے جو انتہائی ضعیف ہو نے کی وجہ سے روزہ نبھا نہیں سکتا اور اس کی بحالیٔ صحت کی بھی کوئی امید نہیں۔ مگر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ انتہائی ذہین و فطین تھے اور انہیں فہمِ قرآن کے سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی دعا بھی حاصل تھی۔ انھوں نے اس آیت کا مفہوم بایں طور بیان کیا ہے ، جس میں نسخ وغیرہ کا شبہ نہیں ہو تا۔ وہ فرما تے ہیں کہ یہ آیت منسوخ نہیں بلکہ اس سے مراد انتہائی بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت ہے جو روزہ رکھنے کی طاقت نہیں رکھتے ، ان کے لیے یہ حکم ہے کہ وہ ہر دن کسی محتاج اور مسکین کو کھانا کھلا دیں۔ [4]

چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ جب بوڑھے ہو گئے تو رمضان میں روزہ نہ رکھتے اور اس کے بدلے ایک مسکین کو ہر دن کھانا کھلا دیتے تھے۔[5]

ایک دوسری روایت میں اس کی مزید وضاحت ہے، آپ فرما تے ہیں :

آیت کریمہ میں ’’علی الذین یطیقونه‘‘سے مراد وہ لوگ ہیں جو روزہ رکھنے میں انتہائی مشقت محسوس کریں، وہ روزہ رکھنے کے بجائے ایک مسکین کا کھانا بطور فدیہ دے دیں اور اس سے اگلے الفاظ ’’جو شخص خوشی سے نیکی کرے تو اچھی بات ہے ۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص ایک سے زائد مسکین کا کھانا فدیہ میں دے دے تو بہت اچھا ہے ۔ بہر حال یہ آیت منسوخ نہیں، بلکہ یہ رخصت اس شخص کو ہے جو انتہائی بڑھاپے کی وجہ سے روزہ بر داشت نہیں کر سکتا یا وہ مریض جس کی صحت یابی کی کوئی امید نہیں ۔ [6]

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جو معنی بیان کیا ہے وہ عربی لغت سے بھی ثابت ہے ۔ جیسا کہ خاصیات ابواب میں ایک خاصہ ’’سلب ماخذ‘‘ہے جیسا کہ اشکیت کا معنی شکایت کو دور کرنا ہے، اسی طرح یطیقونہ کا معنی یہ ہے کہ جو روزے رکھنے کی طاقت اور ہمت نہیں رکھتے۔ لہٰذا حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی تفسیر اپنی جگہ درست ہے ، آیت میں دونوں معانی کا احتمال موجود ہے۔ اگر پہلا معنی مراد لیں تو یہ آیت منسوخ ہے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ اگر دوسرا معنی مراد لیا جائے تو اس آیت کو منسوخ کہنے کی ضرورت نہیں جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا موقف ہے۔


[1] بخاری، الصوم باب نمبر ۳۹۔

[2] البقرة: ۱۸۴۔

[3] نسائی ، الصیام:۲۳۱۸۔

[4] بخاری، الصوم: ۴۵۰۵۔

[5] فتح الباری ص۲۲۵، ج۸۔

[6] نسائی، الصیام:۲۳۱۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:235

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ