السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رمضان المبارک میں جو روزے کسی عذر کی وجہ سے ترک ہو جائیں ، انہیں بعد میں مسلسل رکھنا چاہیے یا انہیں متفرق طور پر رکھا جا سکتا ہے ؟ اس کے متعلق کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رمضان میں ترک کر دہ روزوں کی قضا مسلسل اور الگ الگ دونوں طرح سے جائز ہے ۔ جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا موقف ہے کہ قضا رمضان کے روزے مسلسل رکھے جائیں کیونکہ قضا کی صورت ادا جیسی ہونی چاہیے۔ پھر قرآن کی جس آیت میں قضا کا ذکر ہے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی قرأت میں بایں الفاظ مروی ہے: ’’فعدة من ایام اخر متتابعات‘‘ یعنی وہ دوسرے مسلسل ایام سے اس گنتی کو پورا کرے ۔ اس سلسلہ میں ایک روایت بھی پیش کی جا تی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’جس کے ذمے رمضان کے روزے ہوں وہ انہیں مسلسل رکھے، علیحدہ علیحدہ نہ رکھے۔[1] لیکن یہ روایت ضعیف ہے اور علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس کے ضعف کو بر قرار رکھا ہے۔ [2]
جب کہ اس سلسلہ میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا موقف نقل کیا ہے کہ رمضان میں ترک کر دہ روزوں کی قضا متفرق طور پر بھی دی جا سکتی ہے کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’جس کے روزے رہ جائیں وہ دوسرے دنوں میں ان کی گنتی پوری کر لے۔‘‘[3]اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے دوسرے دنوں سے گنتی پوری کر نے کا حکم دیا ہے، یہ نہیں فرمایا کہ تم پے درپے روزے رکھو۔ اس آیت کے پیش نظر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرما تے ہیں کہ رمضان کی قضا مسلسل نہیں بلکہ اگر الگ الگ روزے رکھ کر بھی دی جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (صحیح بخاری، الصوم، باب شی یقضی قضا ، رمضان ) امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو معلق بیان کیا ہے جبکہ مصنف عبد الرزاق میں اسے متصل سند سے ذکر کیا گیا ہے۔[4] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عمر، حضرت معاذ بن جبل، حضرت عبیدہ بن جراح اور حضرت رافع بن خدیج رضی اللہ عنہم کا بھی یہی موقف بیان کیا ہے۔ [5] اس سلسلہ میں ایک روایت بھی پیش کی جا تی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان کی قضا کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: ’’اگر چاہے تو الگ الگ روزے رکھ لے اور اگر کوئی چاہے تو مسلسل رکھ لے۔[6] حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے۔[7]
تاہم قرآ ن کی پیش کر دہ آیت اس سلسلہ میں مطلق ہے جو اس امر کا تقاضا کر تی ہے کہ رمضان میں ترک شدہ روزوں کی قضادونوں طرح درست ہے کیونکہ مقصود گنتی پوری کرنا ہے اور یہ مقصددونوں طرح سے حاصل ہو جا تاہے ۔ ہمارے رجحان کے مطابق رمضان کے روزوں کی قضا دونوں طرح سے دی جا سکتی ہے ، اس سلسلہ میں جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی قرأت نقل کی گئی ہے ، اس کے آخر میں متتابعات کے الفاظ حذف کر دیئے گئے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے مسلسل روز رکھنا ضروری تھے لیکن بعد میں اس پر پابندی کو ختم کر دیاگیا۔[8]
[1] دار قطنی ، ص۱۹۱، ج۲۔
[2] تمام المنہ:ص۴۲۲۴۔
[3] البقرہ:۱۸۴۔
[4] فتح الباری:ص۲۴۱،ج۴۔
[5] فتح الباری ، ص۲۴۱،ج۴۔
[6] دار قطنی:ص۱۹۳، ج۲۔
[7] تلخیص الحبیر ، ص ۳۹۴، ج۲۔
[8] فتح الباری:ص۲۴۱، ج۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب