سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(239) ترک شدہ روزوں کا فدیہ

  • 20500
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1845

سوال

(239) ترک شدہ روزوں کا فدیہ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک آدمی فوت ہوا اور اُس کے ذمے رمضان کے کچھ روزے تھے ، اب اس کی طرف سے ترک شدہ روزوں کا فدیہ دیا جائے یا کوئی عزیز رشتہ دار اس کی طرف سے فوت شدہ روزوں کو رکھے ، کتاب و سنت کے مطابق اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روزہ ایک عبادت ہے اور عبادات میں نیابت نہیں ہو تی بلکہ اسے انسان نے خود ہی ادا کرنا ہو تا ہے ہاں اگر کسی عبادت میں قرآن و حدیث سے نیابت ثابت ہو تو اس پر عمل کیا جا سکتاہے بصورت دیگر توقف کرنا ہو گا مثلاً کسی انسان کی ترک کر دہ نماز کو دوسرا ادا نہیں کر سکتا ، البتہ روزہ میں نیابت قرآن و حدیث سے ثابت ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے : ’’جو انسان فوت ہو گیا اور اس کے ذمے کچھ روزے ہوں ۔‘‘[1]

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان کی تفصیل بیان کر تے ہوئے لکھا ہے : کیا اس کی طرف سے روزے رکھنا مشروع ہے یا نہیں ؟ کیا ہر قسم کے رو زوں کو یہ حکم شامل ہو گا یا یہ حکم خاص روزوں سے متعلق ہے ؟ کیا روزے ہی رکھے جائیں یا کھانا بھی کھلایا جاسکتا ہے ؟ کیا یہ کام ولی یا سر پرست ہی کر سکتا ہے یا دوسرے بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔[2]

اس عنوان کو ثابت کر نے کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص فوت ہو گیا اور اس کے ذمے کچھ روزے تھے تو اس کا سر پرست اس کی طرف سے روزے رکھے۔ ‘‘[3] وضاحت کر تے ہوئے ایک اور حدیث پیش کی جاتی ہے جسے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ ایک آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کر نے لگا : یا رسول اللہ ! میری والدہ فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمے روزے تھے، کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ نے فرمایا : ’’ہاں ! اللہ کا قرض زیادہ حق رکھتا ہے کہ اسے ادا کیا جائے۔ [4]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ فوت شدہ شخص کے ذمے اگر روزے ہوں تو اس کے وارث اس کی طرف سے روزے رکھیں ، وہ روزے خواہ رمضان کے ہوں یا نذر کے یا کفارہ کے ، سب کا ایک ہی حکم ہے کیونکہ یہ سب اللہ کا قرض ہے جسے ادا کرنا ضروری ہے ، اگر اس کا سر پرست اس کی طرف سے روزے نہ رکھے تو ہر دن کے روزے کی جگہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا جائے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے :’’جو شخص اس حالت میں فوت ہو گیا کہ اس کے ذمے مہینہ بھر کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے ہر دن کے روزے کی جگہ ایک مسکین کو کھانا کھلا دیا جائے۔ ‘‘[5] یہ روایت اگرچہ مرفوعاً ضعیف ہے جیسا کہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت کی ہے لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے موقوفاً صحیح ہے۔ ایک دوسری روایت میں حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا فتویٰ ہے کہ اس کی طرف سے ہر دن کے روزے کے بدلے نصف صاع گندم دی جائے۔[6]

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اس مسئلہ میں مزید توسیع کے قائل ہیں۔ انھوں نے امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اگر میت کی طرف سے تیس آدمی ایک ہی دن روزہ رکھ لیں تو جائز ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] بخاری، الصوم باب نمبر ۴۲۔

[2] فتح الباری، ص ۲۴۵، ج ۴۔

[3] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۵۲۔

[4] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۵۳۔

[5] ابن ماجہ، الصیام: ۱۷۵۷۔

[6] صحیح ابن خزیمه ، حدیث نمبر ۲۰۵۷۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:224

محدث فتویٰ

تبصرے