سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(238) سحری دیر سے کرنا

  • 20499
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1253

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں کچھ لوگ ایسے ہیں جو طلوع فجر سے کافی وقت پہلے سحری کھا کر سو جا تے ہیں، کتاب و سنت کی روشنی میں اس عمل کی کوئی گنجائش ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

روزہ کے متعلق عام اصول یہ ہے کہ افطاری میں جلدی اور سحری میں تاخیر ہونی چاہیے۔ چنانچہ حدیث میں حضرت ابو عطیہ رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا، ہم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابی موجود ہیں، ان میں سے ایک روزہ جلدی کھولتے ہیں اور سحری تاخیر سے کھا تے ہیں اور دوسرے صحابی افطار دیر سے کر تے ہیں اور سحری جلدی کھا لیتے ہیں ۔ انھوں نے فرمایا: ان میں افطار اول وقت اور سحری آخر وقت کر نے والا کون ہے ؟ میں نے عرض کیا وہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں، انھوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول بھی یہی تھا۔ [1] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سحری میں دیر کرنی چاہیے ، اسے جلدی کھا کر سو جانا مستحسن امر نہیں کیونکہ ایسا کرنے میں درج ذیل قباحتیں ہیں۔

1۔ یہ لوگ وقت سے پہلے روزہ رکھ لیتے ہیں۔ 2۔ اکثر نماز فجر با جماعت ادا نہیں ہو تی۔ اس طرح فرض نماز با جماعت چھوڑنا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہے۔ 3۔ بعض اوقات ایسا بھی ہو تا ہے کہ ایسے لوگ نماز فجر طلوع آفتاب کے بعد ادا کر تے ہیں جو گناہ اور جرم ہے۔

ہاں اگر کوئی مجبور ہو تو الگ بات ہے عام حالات میں سحری میں تاخیر کرنا ہی مستحب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا یہی معمول تھا کہ افطاری آفتاب غروب ہو تے ہی جلدی کر تے اور سحری آخر میں کھا تے تھے۔ (واللہ اعلم)


[1] نسائی ،الصیام:۲۱۶۰۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:224

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ