السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
رمضان المبارک میں روزہ رکھنے کی نیت کیسے ہو ، کیا زبان سے نیت کی جا سکتی ہے؟ہمارے ہاں عام کتابوں میں روزے کی نیت کے الفاظ ملتے ہیں، کتاب و سنت کے مطابق اس کی وضاحت کر دیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
نیت دل کا فعل ہے، دل میں روزہ رکھنے کا عزم کرنا نیت کہلا تا ہے ۔ رمضان میں فرض روزے کے لیے یہ عزم طلوع فجر سے پہلے کرنا چاہیے جیسا کہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو شخص طلوع فجر سے پہلے رات کے وقت روزے کی نیت نہ کرے اس کا روزہ نہیں ہو تا ۔ ‘‘[1]
اس حدیث سے معلوم ہو تا ہے کہ فرض روزے کی نیت صبح صادق سے پہلے کر لینا ضروری ہے گویا غروب آفتاب کے بعد سے صبح صادق کے طلوع ہو نے سے پہلے تک نیت کی جا سکتی ہے، البتہ نفلی روزے کی نیت دن کے وقت کسی موقع پر بھی کی جا سکتی ہے اور اس کی احادیث میں صراحت ہے۔[2]لیکن عام کتابوں یا کیلنڈروں پر روزے کی نیت کے الفاظ لکھے ہو تے ہیں ، وہ انتہائی محل نظر ہیں ، الفاظ یہ ہیں :’’وبصوم غدٍ نویت من شھرِ رمضان‘‘ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ’’ میں آئندہ کل کے روزے کی نیت کر رہا ہوں ۔ ‘‘
عربی زبان کے لحاظ سے بھی یہ نیت درست نہیں کیونکہ روزہ آج کا رکھا جا رہا ہے اور نیت آئندہ کل کے روزے کی کی جا رہی ہے ۔ بہر حال یہ الفاظ شرعاً درست نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس طرح کے الفاظ ثابت نہیں ، نیت چونکہ دل کا فعل ہے ، اس لیے دل میں عزم کر لینا ہی کافی ہے، زبان سے اس کی ادائیگی ضروری نہیں ۔ (واللہ اعلم)
[1] نسائی ، الصیام: ۲۳۳۳۔
[2] نسائی، الصیام: ۲۳۲۶۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب