سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(235) دورانِ ایام فوت شدہ روزوں کی قضاء

  • 20496
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 876

سوال

(235) دورانِ ایام فوت شدہ روزوں کی قضاء

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ایام کی حالت میں جو روزے رہ جائیں ، انہیں رمضان کے بعد کس حد تک مؤخر کیا جا سکتاہے ؟ کیا انہیں مسلسل رکھنا ہو تاہے یا متفرق طور پر بھی رکھے جا سکتے ہیں ؟ قرآن و حدیث میں ان کے متعلق کیا ہدایات ہیں ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ایام کے دوران جو روزے رہ جائیں ان کی قضا ضروری ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے ’’ہمیں روزوں کی قضا ء کا حکم دیا جا تا تھا اور نماز کی قضاء کا حکم نہیں دیا جا تا تھا۔ [1]

اگر روزے کے دوران حیض شروع ہو جائے تو اس سے بھی روزہ ختم ہو جا تا ہے ، جس کی قضا بعد میں دینا ہو گی ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے : کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہو تی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے۔ [2]

قضاء شدہ روزوں کے متعلق بہتر ہے کہ انہیں آئندہ رمضان سے پہلے پہلے پورا کرلیے جائیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میرے ذمہ رمضان کے روزے ہو تے تھے تو میں ماہ شعبا ن کے علاوہ ان کی قضا ء کے متعلق طاقت نہ رکھتی تھی۔[3] راوی حدیث نے اس کی وجہ بایں الفاظ بیان کی ہے۔ :میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصروفیت کی وجہ سے ایسانہ کر پاتی تھی۔[4] ہمارے رجحان کے مطابق حق بات یہ ہے کہ اگر استطاعت ہو تو جلدی قضاء دینا ضروری ہے کیونکہ زندگی کے ایام مستعار ہیں، ان کے ختم ہو نے کا علم نہیں، اس لیے اس قسم کا قرض چکا نے میں جلدی کرنا چاہیے۔ نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اپنے رب کی مغفرت کی طرف جلدی کرو۔ ‘‘[5]

قضا شدہ روزوں کو مسلسل رکھنا ضروری نہیں بلکہ انہیں متفرق طور پر بھی رکھا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے : رمضان میں قضا ء شدہ روزوں کو اگر الگ الگ رکھ لیا جائے تو چنداں حرج نہیں۔ (بخاری، معلقاً) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے بھی اس قسم کا فتویٰ مروی ہے ۔[6] مسلسل رکھنے کے متعلق جو روایت پیش کی جا تی ہے وہ سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح مسلم، الحیض: ۳۳۵۔

[2] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۵۱۔

[3] مسند امام احمد: ص ۱۲۴، ج ۶۔

[4] صحیح بخاری،الصوم: ۱۹۵۰۔

[5] آل عمران : ۱۳۳۔

[6] دار قطنی :ص ۱۹۳، ج ۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:222

محدث فتویٰ

تبصرے