السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
میں اس سال حج کے لئے گئی ، مزدلفہ سے واپسی کے بعد ذوالحجہ کی دسویں تاریخ کو طواف کر رہی تھی کہ مجھے ایام سے دو چار ہونا پڑا، شرم کی وجہ سے میں اپنے بھائی کو بھی نہ بتا سکی جو میرے ساتھ محرم کی حیثیت سے تھا۔ اسی طرح میں نے طواف اور دیگر مناسک حج کئے ، اب میں واپس پاکستان آ چکی ہوں، میرے لئے شرعی طور پر کیا حکم ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
طواف افاضہ جو دسویں ذوالحجہ کو کیا جاتا ہے ، حج کا رکن ہے، اس کے بغیر حج نہیں ہوتا۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیوی سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا کے متعلق فرمایا تھا جب کہ وہ حائضہ ہو گئی تھیں: ’’ کیا یہ ہمیں روکے رکھے گی؟ دیگر اہل خانہ نے عرض کیا کہ وہ طواف افاضہ کر چکی ہیں تو آپ نے فرمایا: تب کوئی حرج نہیں۔ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد : ’’ کیا یہ ہمیں روکے رکھے گی‘‘ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ طواف افاضہ کے بغیر حج نہیں ہوتا ہے، اگر کسی عورت کو طواف افاضہ کے دوران ایام آجائیں اور وہ اسی حالت میں طواف کرتی رہے تو اس کا طواف صحیح نہیں اور نہ ہی اس کا حج مکمل ہے، اگر اسباب و وسائل مہیا ہوں تو سائلہ اپنے محرم کے ہمراہ دوبارہ مکہ مکرمہ جائے اور میقات سے عمرہ کا احرام باندھے ، عمرہ کی ادائیگی میں طواف کعبہ و صفا مروہ کی سعی اور اپنے سر کے بالوں کو کاٹنا ہو گا، اس کے بعد وہ طواف افاضہ کرے گی۔ اگر یہ خون شدتِ گبھراہٹ ، انتہائی زیادہ بھیڑ یا کسی اور وجہ سے آیا ہے تو سائلہ کا ادا کردہ طواف اس شخص کے نزدیک تو صحیح ہو گا جو طواف کےلیے طہات کی شرط عائد نہیں کرتا۔البتہ ہمارے رجحان کے متعلق اسے دوبارہ سفر کرنا ہو گا ، اگر دوبارہ جانا ممکن نہیں ہے تو اس نےجو کچھ کر لیا ہے وہ صحیح اور درست ہے کیونکہ وہ اس سے زیادہ کی استطاعت نہیں رکھتی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اللہ کسی کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔ ‘‘[2]
مگر استطاعت نہ ہونے کا فیصلہ نہایت نیک نیتی سے کرنا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ تو دلوں کے راز تک جانتا ہے۔ ( واللہ اعلم)
[1] صحیح البخاري، الحج : ۱۷۵۷۔
[2] ۲؍ البقرة: ۲۸۶۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب