سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(224) آیت حج میں "سبیل" سے کیا مراد ہے؟

  • 20485
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 918

سوال

(224) آیت حج میں "سبیل" سے کیا مراد ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

سورۃ آل عمران کی ایک آیت میں فرضیت حج کا بیان ہوا ہے ، اس میں لفظ ’’ سبیل ‘‘ سے کیا مراد ہے اس کی وضاحت کردیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جس آیت کریمہ کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے، درج ذیل ہے: ’’ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرض ہے جو اس کی طرف راستے کی طاقت رکھتے ہوں۔‘‘[1]

اس آیت میں سبیل سے مراد زاد اور راحلہ ہے۔ زاد سے مراد یہ ہے کہ انسان کے پاس اپنے اہل وعیال کے اخراجات سے زائد اتنی رقم موجود ہو کہ وہ بیت اللہ تک آنے ، واپس جانے اور اس کے کھانے پینے کےلئے کافی ہو، چونکہ قرون اولیٰ میں ہر ایک انسان اپنی سواری کا انتظام خود کرتا تھااس لئے متقدمین کے ہاں راحلہ یعنی سواری کی شرط کا ذکر بھی ملتا ہے، اب چونکہ سرکاری طور پر اس کا انتظام کیا جاتا ہے، لہٰذا اس کے پاس اتنی رقم کا ہونا ضروری ہے کہ بیت اللہ آنے جانے ، وہاں کے کھانے پر اٹھنے والے اخراجات کے لئے کافی ہو، ان اخراجات کے علاوہ اتنی رقم اپنے اہل و عیال کے لئے چھوڑ کر جائے جو اس کی عدم موجودگی میں ان کے اخراجات کے لئے کافی ہو ’’ سبیل ‘‘ کے مفہوم میں یہ تمام باتیں شامل ہیں۔ اس سلسلہ میں ایک روایت بھی بیان کی جاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ سبیل سے مراد راستے کا خرچ اور سواری ہے۔‘‘[2]

لیکن یہ روایت ضعیف ہے، علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے صراحت کی ہے کہ یہ اور اس معنی کی دیگر تمام روایات ضعیف ہیں۔ [3]

بہر حال سبیل سے مراد اتنی رقم ہے جو اس کے اور اہل خانہ کے اخراجات کے لئے کافی ہو۔ ( واللہ اعلم)


[1] آل عمران: ۹۷۔

[2] سنن الدارقطني ص ۲۱۶ج ۲۔

[3] ارواء الغلیل : ۹۸۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:215

محدث فتویٰ

تبصرے