سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(209) حائضہ عورت کا طوافِ وداع

  • 20470
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-20
  • مشاہدات : 1080

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک عورت کو دسویں ذوالحجہ کو طواف کرنے کے بعد اگر حیض آ جائے تو وہ کیا کرے، کیا وہ طواف وداع کے لئے اپنے پاک ہونے کا انتظار کرے یا طواف کے بغیر ہی واپس اپنے وطن آ جائے، قرآن و حدیث کے مطابق ایسی عورت کے لئے کیا حکم ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

طواف وداع کا مطلب یہ ہے کہ حج کرنے والا اپنے آخری لمحات بھی بیت اللہ کے پاس بصورت طواف گذارے لیکن جس عورت کو حیض آ جائے اس کے لئے طواف وداع ضروری نہیں، طواف وداع کے بغیر مکہ مکرمہ سے اپنے وطن واپس آ جائے جیسا کہ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:

’’ لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ وہ اپنے وطن لوٹنے سے پہلے مکہ مکرمہ میں اپنا آخری وقت بیت اللہ کے پاس ( بصورت طواف) گذاریں البتہ حائضہ عورت سے طواف وداع کے متعلق تخفیف کی جاتی تھی۔‘‘[1]

لیکن اس رخصت کے لئے شرط یہ ہے کہ وہ دسویں ذوالحجہ کو طواف افاضہ کر چکی ہو ، جیسا کہ حضرت ابن عباس  رضی اللہ عنہما سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورت کو مکہ مکرمہ سے نکلنے سے پہلے طواف وداع کے متعلق رخصت دی تھی، بشرطیکہ وہ طواف افاضہ کر چکی ہو۔[2]

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ سیدہ صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا طواف افاضہ کے بعد حائضہ ہو گئیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’ وہ تو ہمیں روکے رکھے گی‘‘ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اس نے جب طواف کر لیا تھا تب اسے حیض آیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر وہ مکہ سے روانہ ہو اور ہمارے ساتھ چلے۔ ‘‘[3]

حضرت ابن عمر  رضی اللہ عنہما کا پہلے موقف یہ تھا کہ حائضہ عورت مکہ میں ٹھہرے اور جب پاک ہو جائے تو طواف وداع کر کے وطن واپس آ جائے، پھر انہوں نے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا اور فرماتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورت کو طواف وداع کے متعلق رخصت دی ہے۔[4]

بہر حال حائضہ عورت کے لئے طواف وداع کرنا ضروری نہیں بلکہ جب اس نے طواف افاضہ کرلیا ہے تو طواف وداع کئے بغیر وہ اپنے گھر واپس آ سکتی ہے۔ ( واللہ اعلم)


[1] صحیح البخاري، الحج: ۱۷۵۵۔

[2] صحیح المسلم، الحج : ۱۳۲۸۔

[3] مسند إمام أحمد ص ۳۷۰ج۱۔

[4] صحیح البخاري، الحج: ۱۷۶۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:205

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ