السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم نے اپنے علماء سے سنا ہےکہ دوران احرام عورت کو پردہ کرنے کی اجازت نہیں، کیا یہ بات صحیح ہے، جبکہ پردہ کے احکام سر زمین حجاز میں نازل ہوئے ہیں، اگر عورت کو وہاں پردے کی اجازت نہیں تو وہ کہاں پردہ کرے گی، وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عورت کے لیے ضروری ہے کہ وہ ستر و حجاب کے معاملہ میں کسی قسم کی مداہنت کا شکار نہ ہو، خواہ وہ احرام کی حالت میں ہی کیوں نہ ہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے: (ترجمہ) ’’اے نبی ! اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں اور اہل ایمان کی خواتین سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی چادروں کے پلو اپنے اوپر لٹکالیا کریں۔‘‘ [1]
پھر چہرہ ہی وہ چیز ہے جو مرد کے لئے عورت کے تمام بدن سے زیادہ پر کشش ہوتا ہے اگر اسے ننگا رکھنا ہے تو حجاب کے باقی احکام بے سود ہیں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جب غزوہ بنی مصطلق سے واپسی پر پیچھے رہ گئیں تو انہوں نے حضرت صفوان بن معطل سلمی رضی اللہ عنہ کو دیکھ کر فوراً اپنا چہرہ اپنی چادر سے ڈھانپ لیا۔[2]
البتہ دورانِ حج احرام کی حالت میں عورت پر یہ پابندی ہے کہ وہ نقاب نہ پہنے جیسا کہ حدیث میں ہے: ’’ احرام والی عورت نقاب نہ پہنے اور نہ ہی دستانے استعمال کرے۔ ‘‘[3]
نقاب نہ پہننے کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ احرام والی عورت غیر محرموں سے چہرہ بھی نہیں چھپائے گی بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ایسا مخصوص سلا ہوا کپڑا جو پردہ کے لئے بنایا جاتا ہے استعمال میں نہ لائے۔ نقاب میں عورت اپنے چہرے کو باندھ لیتی ہے، اپنی ناک کے اوپر سے کپڑا گذار کر پردہ کیا جاتا ہے، صرف آنکھیں کھلی ہوتی ہیں، اس قسم کا پردہ کرنے کی ممانعت ہے وہ بھی احرام کی حالت میں۔ لیکن جب اجنبی آدمی سامنے آ جائے تو اپنی چادر کے ساتھ چہرہ چھپانا ہو گا جیساکہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حالتِ احرام میں تھیں اور قافلے ہمارے سامنے سے گذرتے تھے جب وہ ہمارے سامنے آتے تو ہم اپنی چادریں منہ پر لٹکا لیتیں اور جب وہ گذر جاتے تو منہ کھول لیتیں۔ [4]
ان احادیث کی روشنی میں ہمارا موقف ہے کہ عورت احرام کی حالت میں نقاب نہ پہنے البتہ اپنی چادر سے چہرہ کو ضرور چھپائے جب کوئی اجنبی آدمی سامنے ہو ، بصورت دیگر منہ کھلا رکھے۔ ( واللہ اعلم)
[1] الاحزاب: ۵۹۔
[2] صحیح البخاري ، المغازي: ۴۱۴۱۔
[3] مسند إمام أحمد ص ۲۲ ج ۲۔
[4] سنن أبي داؤد ، المناسك : ۱۸۳۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب