سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(199) دسویں ذوالحجہ کو اعمال حج کی ترتیب

  • 20460
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 779

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

حاجی کے لئے دسویں ذوالحجہ کو اعمال ادا کرنے کی کیا ترتیب ہے، اگر کسی وجہ سے یہ ترتیب برقرار نہ رہ سکے تو اس کی تلافی کیسے ہو سکتی ہے، کتاب و سنت میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں، وضاحت سے لکھیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ذوالحجہ کی دس تاریخ کو یوم النحر ہوتا ہے یعنی اسے قربانی کا دن کہا جاتا ہے ، اس دن اعمال کی ترتیب یہ ہے کہ سب سے پہلے جمرہ عقبہ جسے بڑا شیطان کہا جاتا ہے اسے سات الگ الگ کنکریاں ماری جائیں اور ہر کنکری کے ساتھ اللہ اکبر کہا جائے جیسا کہ حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ [1]

اس کے بعد اگر قربانی کرنا ہے تو اسے ذبح کیا جائے کیونکہ قربانی صرف حج تمتع یا قران کرنے والے پر فرض ہے۔ قربانی سے فراغت کے بعد بال منڈوائے یا انہیں چھوٹا کرائے لیکن بالوں کا منڈوانا زیادہ بہتر ہے، اس کے بعد مکہ جا کر طواف افاضہ کرے جسے طواف زیارت بھی کہا جاتا ہے۔ اس ترتیب کو ملحوظ رکھنا افضل ہے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی ترتیب سے اعمال حج ادا کئے تھے لیکن اگر کسی نے یہ ترتیب برقرار نہ رکھی تو اس کی تلافی کے لئے کوئی قربانی دینا ضروری نہیں ہے۔

چنانچہ حدیث میں ہے، حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں لوگوں کو ان کے سوالات کا جواب دینے کے لئے کھڑے ہوئے تو ایک شخص نے کہا: میں نے قربانی سے پہلے حلق کرادیا ہے، آپ نے فرمایا: اب قربانی ذبح کردو، کوئی حرج نہیں ہے۔ دوسرے نے کہا: میں نے جمرہ کو کنکریاں مارنے سے پہلے قربانی کر دی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں ہے۔ اس دن تقدیم و تاخیر کے متعلق آپ سے جو بھی سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: اب کر لو، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔[2]

بہر حال مذکورہ ترتیب کا خیال رکھنا چاہیے لیکن اگر کسی وجہ سے تقدیم و تاخیر ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ جب شام کے بعد رمی کرے یا بھول کر یا جہالت کی وجہ سے قربانی کرنے سے پہلے سر منڈوادے تو کوئی حرج نہیں۔ ‘‘[3]


[1]  صحیح البخاري، الحج : ۱۷۵۰۔

[2]  صحیح البخاري، العلم: ۸۳۔

[3]  صحیح البخاري ، الحج باب ۱۳۰۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:199

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ