سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(195) صدقہ فطر کی مقدار

  • 20456
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-28
  • مشاہدات : 3281

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

صدقہ فطر کے متعلق کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ نصف صاع بھی دیا جا سکتاہے ، جب کہ ہم تو ایک صاع ہی دیتے آ رہے ہیں، کیا نصف صاع دینے کی کوئی گنجائش ہے ، وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنیادی غذائی اجناس سے صدقہ فطر کے لیے ایک صاع کے برابر ادا کر نے کا حکم دیا ہے ، چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں عید الفطر کے موقع پر کھانے کی اشیا ء سے ایک صاع ادا کر تے تھے اور اس وقت ہمارے کھانے کی اشیا ء جو، منقی، پنیر اور کھجور ہوا کر تی تھیں۔ [1]رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گندم عام دستیاب ہو نے لگی تو صدقہ فطر گندم سے ادا ہو نے لگا لیکن حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت سے پتا چلتا ہے کہ لوگوں نے قیمت کو بنیاد بنا کر گندم سے ایک صاع کی بجائے نصف صاع ادا کرنا شروع کر دیا ہے۔[2]

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ وضاحت کر تے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے دور حکومت میں جب شام کے علاقہ سے گندم آنا شروع ہوئی تو حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میری رائے کے مطابق اس گندم کا ایک مُد دوسری غذائی اجناس کے دو مُد کے برابر ہے۔ [3]ایک روایت میں حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ مزید وضاحت کرتے ہوئے فرما تے ہیں: ’’ہم غذائی اجناس سے ایک صاع ہی صدقہ فطر دیا کر تے تھےحتیٰ کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ حج یا عمرہ کر نے کے لیے ارضِ حرم میں آئے تو انھوں نے منبر پر خطبہ دیا اور لو گوں کو مخاطب کر کے کہا کہ میرے خیال کے مطابق اس گندم کے دو مُد کھجوروں کے ایک صاع کے برابر ہیں، پھر لو گوں نے اس کے مطابق عمل کرنا شروع کر دیا لیکن میں تو ایک صاع ہی دیتا رہوں گا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں دیا کرتا تھا۔ ‘‘[4] حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے بھی ایک روایت ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں گندم سے دو مُد یعنی نصف صاع بطور فطرانہ ادا کر تے تھے[5] عرب میں دوسری اشیا ء خوردنی کے مقابلہ میں گندم قیمتی ہو تی تھی اس لیے نصف صاع کا اعتبار کیا گیا، لیکن اس پر صحابہ کرام کا اجماع نہیں ہوا جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی رائے اس کے مخالف ہے ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ  سے اس کے متعلق مروی ہے کہ آپ نے قیمت کا اعتبار کر تے ہوئے ایک وقت میں نصف صاع دینے کی اجازت دی لیکن بعدمیں گندم کی ارزانی دیکھ کر دوبارہ پورا صاع ادا کر نے کا حکم دیا۔[6]

حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ، صحابہ کرام کا یہ اختلاف بیان کر نے کے بعد لکھتے ہیں :’’اگر ہر زمانے میں قیمت کو بنیاد بنا کر صدقہ فطر کی ادائیگی کا سلسلہ شروع ہو گیا تو اس کی مقدار کبھی منضبط نہیں رہ سکے گی بلکہ ہو سکتا ہے کہ قیمتوں کے اتار چڑھاؤ کی وجہ سے کسی وقت خود گندم سے بہت سے صاع مقرر کرنا پڑیں۔[7]

ہمارے رجحان کے مطابق قیمتوں سے قطع نظر ہر علاقے کی بنیادی غذائی جنس سے ایک صاع صدقہ فطر ادا کر نے کا طریقہ ہی قابل عمل ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دور کی مختلف بنیادی اجناس کے حوالے سے مقرر فرمایا۔ آپ نے جن اشیا ء کا نام لیا وہ بھی ہم قیمت نہ تھیں، لیکن آپ نے قیمتوں کے فرق کو ایک طرف رکھتے ہوئے رائج چیز کا نام لے کر ہر ایک میں صاع کی مقدار متعین فرمائی، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنیادی غذائی اجناس کی قیمتوں کو بنیاد بنا نے کی بجائے مقدار کو بنیاد بنایا اور تمام اجناس کی یکساں مقدار کو ملحوظ رکھا۔ ہمارے نزدیک سنت پر عمل کرنا ہی باعث خیر و برکت ہے نیز ہمارے ہاں چونکہ گندم عام دستیاب ہے اس لیے ایک صاع ہی ادا کرنا چاہیے ۔ اگر غریب اور نا دار لو گوں کو حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے مروی ہے حدیث کے پیش نظر نصف صاع دینے کی رعایت دیتے ہیں تواندیشہ ہے کہ اس سے کھاتے پیتے لوگ بھی ناجائز فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، الزکوة: ۱۵۱۰۔

[2] صحیح بخاری، الزکوة: ۱۵۰۔

[3] صحیح بخاری ، الزکوة: ۱۵۰۸۔

[4] صحیح مسلم، الزکوة : ۲۲۸۴۔

[5] مسند امام احمد ، ص ۳۵۰، ج ۶۔

[6] ابو داؤد، الزکوة: ۱۶۲۲۔

[7] فتح الباری: ص ۴۷۱، ج ۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:192

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ