السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسجد کی انتظامیہ کے پاس زکوۃ، فطرانہ سے پس انداز کی ہوئی رقم موجود ہے اور مسجد میں بسلسلہ ناظرہ قرآن بچوں کی تعلیم جاری ہے ، کیا مذکورہ رقم سے مدرس کو تنخواہ دی جا سکتی ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسجد اور اس کے کسی مصرف پر زکوۃ اور فطرانہ کی رقم خرچ نہیں کی جا سکتی ، ہاں اگر مدرس غریب و مسکین ہے تو اسے زکوۃ فطرانہ دیا جا سکتاہے، اس کے لیے مسجد میں بسلسلہ ناظرہ قرآن مدرس ہونا ضروری نہیں ۔ کچھ حضرات مصارف زکوۃ میں فی سبیل اللہ کے مفہوم کو اس قدر وسعت دیتے ہیں کہ ہر قسم کے رفاہی کاموں پر زکوۃ صرف کر نے کو جائز خیال کرتے ہیں۔ اگر یہ صحیح ہے تو زکوۃ کو آٹھ مصارف میں محدود کرنا بے مقصد ٹھہر تا ہے کیونکہ اس طرح فی سبیل اللہ کی مد اس قدر وسیع ہو جا تی ہے کہ ہر قسم کے کار خیر اس میں شامل ہو جا تے ہیں۔ چنانچہ علامہ البانی مرحوم لکھتے ہیں :
’’آیت مصارف میں فی سبیل اللہ کی یہ تفسیر کہ اس سے جملہ اعمال خیر مراد ہوں گے ، سلف میں سے کوئی بھی اس کا قائل نہیں۔ اگر معاملہ اس طرح ہو تا تو آیت کریمہ میں زکوۃ کو صرف آٹھ مصارف میں محدود کر نے کی کیا ضرورت تھی ۔‘‘[1]
ہمارے رجحان کے مطابق آیت میں ’’ فی سبیل اللہ ‘‘ سے مراد جہاد فی سبیل اللہ ہے جیسا کہ مختلف احادیث سے اس کی وضاحت ہو تی ہے ، کیونکہ اس سے مراد براہ راست اعلاء کلمۃ اللہ مقصود ہو تا ہے ، دینی مدارس بھی اسی مد میں شامل ہیں۔ اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کو بھی فی سبیل اللہ میں شامل فرمایا ہے جیسا کہ آپ نے حضرت ام معقل اسد یہ کو اس اونٹ پر حج کر نے کا حکم دیا جسے ان کے شوہر نے فی سبیل اللہ وقف کر دیا تھا، آپ نے اس وقت فرمایا تھا کہ حج بھی فی سبیل اللہ ہے۔[2]
اس لیے صورت مسؤلہ میں زکوۃ اور فطرانہ کی رقم مسجد میں بسلسلہ ناظرہ قرآن بچوں کو پڑھانے والے مدرس کو نہیں دی جاسکتی۔
[1] تمام المنه: ص ۳۸۲۔
[2] ابو داؤد، المناسك: ۱۹۸۹۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب