السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا زکوۃ ادا کر تے وقت مال پر سال کا گزرنا ضروری ہے ، آیا سال گزرنے سے پہلے اگر کوئی ضرورت مند آ جائے تو کیا اسے زکوۃ دی جا سکتی ہے یا سال گزرنے کا انتظار کرنا ہو گا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
زکوۃ کی شرائط میں سے ایک بنیادی شرط یہ ہے کہ مال مملوکہ پر ایک سال گزر جائے، شریعت نے حکمت و مصلحت کے پیش نظر ایک مدت مقرر کر دی ہے اور وہ مدت ایک سال ہے۔ زکوۃ کو اس مدت سے مر بوط کر نے سے اہل ثروت اور زکوۃ کے حقداروں میں توازن پیدا کرنا مقصود ہے ۔ اگر سال سے کم عرصے میں زکوۃ کی ادائیگی کو ضروری قرار دیا جائے تو اس سے مال داروں کے مال میں نقصان کا اندیشہ ہے اور سال سے زیادہ مدت مقرر کر دی جا تی تو اس سے مستحقین زکوۃ کا استحقاق مجروح ہوتا، لہٰذا شریعت نے زکوۃ کے واجب ہو نے کے لیے ایک سال گزرنے کی شرط لگا دی ہے۔ اگر اموال مملوکہ پر سال گزرنے سے پہلے پہلے صاحب فوت ہو جائے یا اس کا مال تلف یا چوری ہو جائے تو اس میں زکوۃ ساقط ہو جا تی ہے۔ البتہ اگر سال گزرنے سے پہلے کوئی حقدار آ جائے اور زکوۃ کا طالب ہو تو اسے فرضیت سے قبل زکوۃ دی جا سکتی ہے، ادا کر دہ زکوۃ کو آئندہ حساب میں شامل کر لیا جائے گا جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ زکوۃ الفطر ، عید کا چاند نظر آ نے سے ایک دو دن پہلے تحصیل دار کو جمع کرا دیتے تھے ، اس سے قبل از وقت زکوۃ ادا کر نے کا جواز معلوم ہو تا ہے ۔ لیکن تین چیزیں سال پورا ہو نے کی شرط سے مستثنی ہیں جن کی تفصیل حسبِ ذیل ہے۔
1 تجارت کا نفع: جو مال تجارت میں لگا ہے وہ اصل ہے ، اس میں سال گزرنا ضروری ہے لیکن جو سال کے دوران نفع حاصل ہو تا ہے وہ اصل کے تابع ہو تا ہے لہذا اس نفع پر سال کا گزرنا ضروری نہیں۔
2 مویشیوں سے پیدا ہو نے والے بچے بھی اپنی ماؤں کے تابع ہو تے ہیں ، بچوں پر بھی سال گزرنے کی شرط ساقط ہے۔ انہیں اپنے اصل کے ہمراہ شمار کیا جائے گا۔
3 زمین کی پیدا وار بھی سال گزرنے سے مستثنیٰ ہے یعنی غلہ جات کا سال اس وقت ہے جب یہ حاصل ہوں، ان تین کے علاوہ باقی اموال میں زکوۃ کے لیے ان پر سال کا گزر جانا ضروری ہے۔ (واللہ اعلم)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب