سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(182) مال زکوۃ دوسرے شہر میں صرف کرنا

  • 20443
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 701

سوال

(182) مال زکوۃ دوسرے شہر میں صرف کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں اکثر مدارس کے لیے سفیر حضرات مال زکوۃ اکٹھا کر تے ہیں ، کیا زکوۃ کے حقدار مقامی فقراء ہیں یا انہیں دوسرے شہروں کے مستحقین پر بھی صرف کیا جا سکتا ہے ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بہتر یہ ہے کہ جس علاقے سے زکوۃ وصول کی جائے ، اسی علاقہ کے فقراء میں تقسیم کر دی جا ئے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’زکوۃ اغنیاء سے وصول کر کے وہاں کے محتاجوں پر تقسیم کر دی جائے ۔ ‘‘[1]

تاہم ضرورت و مصلحت کے پیش نظر کسی دوسرے شہر میں بھی مال زکوۃ صرف کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ہمارے ہاں مدارس کے لیے زکوۃ وصول کی جا تی ہے ۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :’’ مالداروں سے زکوۃ وصول کی جائے اور فقرا ء پر خرچ کر دی جائے خواہ وہ کہیں بھی ہوں۔‘‘ [2]

انھوں نے اس حدیث کو نقل کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں :’’تؤخذ من اغنیائھم و نرد علی فقرائھم ‘‘معلوم ہو تا ہے کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فقراءھم کی ضمیر کو تمام انسانوں کے لیے عام رکھا ہے ، بہر حال کسی مصلحت کی بنا پر زکوۃ دوسرے شہر منتقل کی جا سکتی ہے مثلاً مقامی جماعت مدرسہ کے کے اخراجات کی متحمل نہیں ہے یا مقامی طور پر لوگ اس کے ضرورت مند نہیں ہیں۔ (واللہ اعلم)


[1] بخاری الزکوة: ۱۴۵۸۔

[2] صحیح بخاری، الزکوة: باب نمبر۶۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:183

محدث فتویٰ

تبصرے