سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(178) قبرستان میں مسجد بنانا

  • 20439
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 3303

سوال

(178) قبرستان میں مسجد بنانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قبرستان میں مسجد بنانے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ اگر پرانی قبروں کو نیست و نابود کر کے مسجد بنائی جائے تو کیا وہاں نماز پڑھی جا سکتی ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفلی نماز ادا کرنے کے متعلق حکم دیا ہے کہ اسے اپنے گھروں میں پڑھا کرو اور اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ۔‘‘[1]

اس حدیث کا واضح مطلب یہ ہے کہ قبرستان نماز پڑھنے کی جگہ نہیں ہے، جب قبرستان میں نماز نہیں پڑھی جا سکتی تو وہاں مسجد بنانا کیونکر جائز ہو سکتی ہے، اس امر کی تائید ایک دوسری حدیث سے بھی ہوتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ زمین تمام کی تمام مسجد ہے، سوائے حمام اور مقبرہ کے۔ ‘‘[2]

اس حدیث کا مطلب ہے کہ قبرستان میں مسجد نہیں بنائی جا سکتی ، قبرستان میں یا قبر کے آس پاس نماز پڑھنے کا معاملہ بہت حساس ہے یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی بزرگ یا نبی کی قبر کے پاس مسجد بنانے سے منع کیا ہے مبادا لوگ یہ خیال کریں کہ مدفون ہستی کی برکات اور اس کے فیوض کی بنا پر یہاں نماز پڑھنا افضل ہے اور یہ بات شرک کے لئے ایک چور دروازہ کھولتی ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’اللہ تعالیٰ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔ ‘‘[3]

علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ قبروں کو مسجدیں بنانے میں تین امور شامل ہیں:

1  قبروں کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنا 2  قبروں پر سجدے کرنا  3  قبروں پر مساجد تعمیر کرنا۔[4]

اس بنا پر ہمارے رجحان کے مطابق قبرستان میں مسجد تعمیر کرنا شرعاً جائز نہیں ہے اگر کوئی قبرستان میں مسجد بناتا ہے تو اس کا حکم قبر جیسا ہی ہے ۔ چنانچہ حضرت قتادۃ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک مرتبہ قبرستان کے پاس سے گزرے تو لوگ اس میں مسجد تعمیر کر رہے تھے، انہیں دیکھ کر حضرت انس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

’’ قبروں کے درمیان مسجد بنانا ناپسند کیا جاتا تھا۔‘‘[5]

ہاں اگر قبرستان پرانا ہو چکا ہو اور وہاں دفن کرنے کا سلسلہ بھی ختم ہو چکا ہو اور وہ قبرستان بھی غیر مسلم لوگوں کا ہو تو وہاں قبروں کو سطح کے برابر کر کے وہاں مسجد تعمیر کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ طیبہ تشریف لائے تو مدینہ طیبہ کے ایک پرانے قبرستان کو ہموار کر کے وہاں مسجد نبوی تعمیر کی تھی۔ [6]

امام بخاری نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’ کیا مشرکین کی قبروں کو ہموار کر کے وہاں مسجد بنائی جا سکتی ہے۔ ‘‘[7]

لیکن مسلمانوں کے قبرستان میں یہ کام نہیں کرنا چاہیے کیونکہ ان کی قبریں اعزاز و تکریم کی حقدار ہیں ، انہیں اکھاڑنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔ بعض لوگ مسجد نبوی میں موجود قبور ثلاثہ سے دلیل لیتے ہیں کہ قبرستان میں مسجد بنائی جا سکتی ہے لیکن یہ دلیل اس لئے بے کار ہے کہ قبور ثلاثہ سے پہلے وہاں مسجد موجود نہ تھی اور یہ تینوں قبریں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ میں ہیں جو مسجد نبوی سے باہر تھا، ان تینوں قبروں کو مسجد میں شامل کرنے کا حکم نہ اللہ تعالیٰ نے دیا نہ اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اور نہ ہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اس کے متعلق کوئی اشارہ دیا، اسے خیر القرون کے بعدمسجد نبوی میں شامل کیا گیا اس لئے یہ کام کسی شرعی مسئلہ کی دلیل نہیں بن سکتا، ویسے بھی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا حجرہ مبارکہ جس میں یہ تینوں قبریں موجود ہیں چاروں طرف سے بند ہے وہاں جانا ممکن نہیں، اس طرح گویا انہیں مسجد سے الگ کر دیا گیا ہے۔

بہر حال قبرستان میں مسجد تعمیر کرنا اور تعمیر شدہ مسجد میں دو تین قبروں کا آجانا ان دونوں میں واضح فرق ہے ، تعمیر شدہ مسجد میں بھی اگر قبر سامنے قبلہ کی طرف ہو تو وہاں نماز پڑھنا درست نہیں ، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کی طرف منہ کر کے نمازپڑھنے سے منع کیا ہے۔ [8]

البتہ نماز جنازہ جس میں رکوع اور سجدہ نہیں ہوتا، اسے پڑھنے کی خصوصی اجازت ہے جیسا کہ احادیث میں آیا ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] سنن النسائي، قیام اللیل : ۱۵۹۹۔

[2] سنن أبي داؤد ، الصلٰوة : ۴۹۲۔

[3] صحیح البخاري، الصلٰوۃ : ۴۳۵۔

[4] احکام الجنائز ص ۲۷۹۔

[5] المغني ص ۴۷۵ج۲۔

[6] صحیح البخاري، الصلوٰة : ۴۲۸۔

[7] صحیح البخاري، الصلٰوة باب ۴۸۔

[8] صحیح مسلم، الجنائز: ۹۷۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:177

محدث فتویٰ

تبصرے