سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(173) قبر پر قرآنی آیات پڑھنا

  • 20434
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 901

سوال

(173) قبر پر قرآنی آیات پڑھنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں جب میت کو دفن کیا جاتا ہے تو اس کے سر کی جانب سورۂ بقرۃ کی ابتدائی آیات اور پاؤں کی طرف سورۃ بقرۃ کی آخری آیات پڑھی جاتی ہیں، اس طرح قرآنی آیات پڑھنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قبرستان ، قرآن کریم کی تلاوت کا محل نہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں اس کے متعلق واضح اشارہ موجود ہے، آپ نے فرمایا: ’’ اپنے گھروں کو قبریں مت بناؤ، بے شک شیطان اس گھر سے فرار اختیار کرتا ہے جس میں سورۂ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے۔ ‘‘[1] 

صحابہ کرام میں بھی کوئی اس کا فاعل یا قائل نہیں اور نہ کسی نے قبرستان میں قرآن خوانی کی ہے۔ صورت مسؤلہ کے جواز کے متعلق ایک روایت پیش کی جاتی ہے، جو حسب ذیل ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جب تم میں سے کوئی فوت ہو جائے تو اسے نہ روک رکھو بلکہ اسے جلد دفن کرو اور دفن کرنے کے بعد اس کے سرہانے سورۃ بقرۃ کا ابتدائی حصہ اور اس کے پاؤں کی جانب اس سورت کا آخری حصہ پڑھا جائے۔ ‘‘صاحب مشکوٰۃ نے اس روایت کو شعب الایمان کے حوالہ سے بیان کیا ہے پھر فرمایا ہے کہ یہ روایت مرفوع نہیں بلکہ موقوف ہے یعنی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے۔ [2]

علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کے متعلق لکھتے ہیں: ’’ اس کی سند انتہائی ضعیف ہے کیونکہ اس میں ایک راوی یحییٰ بن عبد اللہ بن ضحاک ضعیف ہے، اس نے ایوب بن نہیک سے اس کو بیان کیا ہے جسے ابو حاتم وغیرہ نے ضعیف کہا ہے۔ امام ازدی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اسے متروک قرار دیا ہے۔[3]

علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ مزید لکھتے ہیں کہ صاحب مشکوٰۃ نے امام بیہقی کے حوالےسے جولکھا ہے کہ مذکورہ روایت موقوفاً صحیح ہے، مجھے شعب الایمان میں یہ الفاظ نہیں مل سکے۔ بہر حال مذکورہ روایت نہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے اور نہ ہی حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے صحیح سند سے ثابت ہے ، اس لئے ایسی روایت کو بطور دلیل پیش نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ ایک رواج ہے جو ہمارے ہاں مشہور ہو چکا ہے، اس کے جواز کے لئے کوئی مستند روایت نہیں ، لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔


[1] مسند أحمد ص ۲۸۴ج۲۔

[2] مشکوٰۃ ، الجنائز : ۱۷۱۷۔

[3] تعلیق الباني علی المشکوٰۃ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:173

محدث فتویٰ

تبصرے