السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
غیر محرم آدمی کسی عورت کے جنازے کو کاندھا دے سکتا ہے یا نہیں؟ کتاب و سنت کی رو سے اس کی وضاحت کریں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے جنازے کے ساتھ جانا اور اسے کاندھا دینا اس کا حق ہے جو دوسرے مسلمانوں کو ادا کرنا چاہیے ۔ جنازے کے ساتھ جانے والے مرد ہی ہوتے ہیں کیونکہ عورتوں کو جنازے کے ساتھ جانے کی اجازت نہیں ۔ جیسا کہ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے: ہمیں جنازوں کے پیچھے جانے سے روک دیا گیا لیکن اس معاملہ میں ہم پر زیادہ سختی نہیں کی جاتی تھی۔ [1]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنازے کے ساتھ جانے والے مرد حضرات ہوتے ہیں اور عورتوں کا جنازے کے ساتھ جانا مکروہ ہے پھر عورت کے جنازے کو کندھا دینے کے لئے محرم اور غیر محرم کی تفریق کتاب و سنت سے ثابت نہیں، کوئی بھی مسلمان میت کو کندھا دے سکتا ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ جنازہ اٹھانا مردوں کا کام ہے، عورتوں کا نہیں‘‘[2]
بلکہ ایک روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ غیر محرم آدمی عورت کی میت کو قبر میں اتار سکتا ہےجیسا کہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دختر کے جنازے میں موجود تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں میں آنسو جاری تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم میں کوئی ایسا آدمی ہے جس نے آج اپنی بیوی سے صحبت نہ کی ہو، حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !میں ہوں ، آپ نے فرمایا: ’’ تم اس قبر میں اترو۔‘‘ چنانچہ ابو طلحہ قبر میں اترے اور اسے لحد میں لٹایا ۔ [3]
حضرت ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی کو قبر میں اتارنا اس بات کی دلیل ہے کہ غیر محرم مرد عورت کو قبر میں اتار سکتا ہے۔ جب غیر محرم میت کو قبر میں اتار سکتا ہے تو اسے کندھا دینے میں کون سا امر مانع ہے؟ ہمارے رجحان کے مطابق میت کو کندھا دیتے ہوئے محرم اور غیر محرم کی تفریق غیر شرعی ہے اور غیر محرم میت کو کندھا دے سکتا ہے۔ ( واللہ اعلم)
[1] صحیح البخاری، الجنائز : ۱۲۷۸۔
[2] صحیح البخارہ، الجنائز باب ۵۰۔
[3] صحیح البخاري ، الجنائز : ۱۳۴۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب