سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(169) جنازے میں تاخیر

  • 20430
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-17
  • مشاہدات : 1668

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا رشتہ داروں کے انتظار میں جنازہ میں دیر کی جا سکتی ہے کیونکہ ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ باہر سے آنے والے رشتہ داروں کی وجہ سے جنازہ پڑھنے میں بہت دیر کی جاتی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مرنے والے کے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ اس کی تجہیز و تکفین اور تدفین میں دیر نہ کی جائے بلکہ جلدی کی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

’’ جنازہ میں جلدی کرو، میت اگر نیک ہے تو اسے خیر کی طرف لے جا رہے ہو اور میت اگر اس کے سوا کچھ اور ہے تو تم شر کو اپنی گردنوں سے اتار رہے ہو۔ ‘‘[1]

اس حدیث کی بنا پر رشتہ داروں کے انتظار میں جنازہ میں دیر نہیں کرنی چاہیے البتہ ایک دو گھنٹے تک انتظار کرنے میں چنداں قباحت نہیں۔ ہمارا رجحان یہی ہے کہ میت کی تدفین میں جلدی کی جائے اور اگر بعض رشتہ دار دیر سے پہنچتے ہیں تو وہ میت کی قبر پر جنازہ پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں جھاڑو دینے والے مرد یا عورت کی نماز جنازہ قبر پر جا کر پڑھی تھی، جسے دفن کر دیا گیا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کی اطلاع نہیں دی گئی تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ مجھے اس کی قبر بتاؤ۔‘‘[2]

چنانچہ صحابہ کرام نے اس کی قبر کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آگاہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبر پر جا کر نماز جنازہ ادا کی۔ اس حدیث کی بناء پر رشتہ داروں کے انتظار میں جنازہ میں دیر نہ کی جائے اگر وہ دیر سے آتے ہیں تو وہ اس کی قبر پر جا کر نماز جنازہ پڑھ لیں۔ ( واللہ اعلم)


[1] صحیح البخاري، الجنائز : ۱۳۱۵۔

[2] صحیح مسلم ، الجنائز : ۹۵۶۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:170

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ