السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نماز جنازہ غائبانہ ادا کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے، کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے غائبانہ نماز جنازہ ثابت ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
غائبانہ نماز جنازہ صحیح احادیث سے ثابت ہے جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا فرمائی۔ چنانچہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دن حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کی وفات کا اعلان کیا اور وہ اسی دن فوت ہوا تھا ، پھر آپ لوگوں کو لے کر عیدگاہ گئے، ان کی صفیں بنائیں پھر غائبانہ نماز جنازہ پڑھتےہوئے اس پر چار تکبیریں کہیں۔ [1]
البتہ کچھ اہل علم غائبانہ نماز جنازہ کو ناجائز قرار دیتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ غائبانہ نماز جنازہ صرف نجاشی رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص ہے کیونکہ ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے تمام پردے ہٹا دیئے گئے تھے اور نجاشی رضی اللہ عنہ کی میت آپ کے سامنے تھی، لیکن امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے محض اوہام و خیالات سے تعبیر کیا ہے۔ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اس تاویل کو فاسد قرار دیا ہے۔ [2]
چونکہ خصوصیت کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لئے یہ عمل بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی کے دیگر اعمال کی طرح قابل نمونہ ہے، بعض حضرات یہ کہتے ہیں کہ نجاشی کی نماز جنازہ اس علاقہ میں نہیں پڑھی گئی تھی اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نماز جنازہ پڑھنے کا اہتمام فرمایا، لیکن اس بات کی وضاحت کسی دوسری حدیث میں نہیں ہے کہ حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کا جنازہ اس کے علاقہ میں نہیں پڑھا گیا تھا ، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:’’ ایسی کوئی خبر میرے علم میں نہیں، جس سے معلوم ہو کہ نجاشی کی نماز جنازہ اس کے شہر میں نہیں پڑھی گئی تھی ۔‘‘[3]
البتہ ہم یہ ضرور لکھتے ہیں کہ ہر مسلمان کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا مشروع نہیں ہے بلکہ جس مسلمان کا معاشرہ میں علمی، سیاسی اور رفاعی طور پر اثر و رسوخ ہو، اس کی غائبانہ نماز جنازہ پڑھنے کا اہتمام کیا جائے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نجاشی رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی دوسرے مسلمان کا غائبانہ نماز جنازہ پڑھنا ثابت نہیں ہے اور نجاشی رضی اللہ عنہ کا سیاسی اثر و رسوخ اور اس کی اسلام دوستی واضح ہے، اس کے لئے دلائل مہیا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ( واللہ اعلم)
[1] صحیح البخاري، الجنائز : ۱۳۳۳۔
[2] احکام الجنائز ص ۱۱۹۔
[3] فتح الباري ص ۲۴۰ ج۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب