سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(154) میت کو دوسرے شہر دفن کرنا

  • 20415
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1185

سوال

(154) میت کو دوسرے شہر دفن کرنا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا عقیدت کی وجہ سے کسی میت کو دوسرے شہر دفن کیا جا سکتا ہے؟ ہمارے علاقے کے کچھ لوگ ایسا کرتے ہیں، وہ اپنی میت کو دوسرے شہر جا کر دفن کرتے ہیں کیونکہ وہاں ان کے پیر دفن ہیں۔ کتاب و سنت میں اس کا کوئی ثبوت ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اصل بات تو یہ ہے کہ قیامت کے دن نجات کا باعث انسان کا کتاب و سنت پر مبنی عقیدہ اور نیک عمل ہو گا ، خواہ اسے کہیں بھی دفن کر دیا جائے۔ اگر عقیدہ اور عمل اچھا نہیں تو مدینہ طیبہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہونا بھی اس کے کچھ کام نہیں آئے گا۔ صورت مسؤلہ میں کتاب و سنت سے یہی ثابت ہے کہ میت جہاں فوت ہو اسے وہیں یعنی اس کے علاقہ میں ہی دفن کیا جائے ۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت عبد الرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ کی میت کووادی حبشہ سے مکہ مکرمہ لایا گیا اور وہاں دفن کیا گیا تو ام المومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’ اگر میں وہاں ہوتی تو میرےبھائی کو وہیں دفن کیا جاتا جہاں وہ فوت ہوا تھا۔ ‘‘[1]

اس حدیث پر محدث بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’ میت کو ایک علاقے سے دوسرے علاقہ میں منتقل کرنا مکروہ ہے۔ ‘‘

حضرت جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے احد کے دن شہداء کو مدینہ میں دفن کرنے کے لئے اٹھایا تو ایک منادی کرنے والے نے اعلان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق مقتولین کو ان کی جائے قتل پر ہی دفن کیا جائے۔ [2]

اس حدیث پر محدث ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’ میت کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا ناپسندیدہ ہے۔ ‘‘

بہر حال عمومی طورپر اسلام میت کی منتقلی کی حوصلہ افزائی نہیں کرتا ۔ ہاں اشد ضرورت اور مجبوری ہو تو وفات کی جگہ سے دوسری جگہ منتقل کی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے اپنے والد گرامی کی میت کو چھ ماہ بعد نکال کر دوسری جگہ دفن کیا تھا۔ [3]

لیکن خود ساختہ عقیدت کی بنا پر میت کو دوسری جگہ پر منتقل کرنا درست نہیں البتہ جن مقامات کی فضیلت کتاب و سنت سے ثابت ہے وہاں دفن ہونے کی خواہش کی جا سکتی ہے اور اگر حالات اجازت دیں تو میت کو وہاں منتقل بھی کیا جا سکتا ہے مثلاً ارض مقدس، حرمین کی سرزمین وغیرہ۔ جیسا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے: ’’ جو شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ مجھے ارض مقدس وغیرہ میں دفن کیا جائے۔ ‘‘[4]

اس کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موت کے وقت ایک خواہش کو بیان کیا ہے کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیا تھا کہ مجھے ارض مقدس کے اتنا قریب کر دے کہ اگر پتھر پھینکا جائے تو وہاں پہنچ جائے۔

اس مقام پر امام ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے بہت نفیس بحث کی ہے کہ اگر کوئی خاص مصلحت ہو تو میت کو دوسرے شہر منتقل کیا جا سکتا ہے، بصورت دیگر اسے وہی دفن کیا جائے جہاں فوت ہوا ہے۔ [5]

ہمارے رجحان کے مطابق ارض مقدس اور حرمین کی فضیلت قرآن و حدیث سے ثابت ہے ، اگر حالات اجازت دیں تو ان مقامات پر میت کو منتقل کیا جا سکتاہے لیکن خود ساختہ ’’مزارات ‘‘ کے پڑوس میں دفن ہونے کی خواہش اور عملی طور پر وہاں میت کو منتقل کر کے دفن کرنا ناجائز ہے۔ ( واللہ اعلم)


[1] سنن البیھقي ص ۵۴ج۴۔

[2] سنن أبي داؤد ، الجنائز : ۳۱۶۵۔

[3] صحیح البخاري ، الجنائز : ۱۳۵۲۔

[4] صحیح البخاري، الجنائز : ۱۳۳۹۔

[5] فتح الباري ص ۲۶۴ ج۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:160

محدث فتویٰ

تبصرے