سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(582) منسلک وصیت پر تمام ورثاء کا دست بردار ہونا

  • 2040
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 1217

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

(1) اگر میت1/3سے زائد مال کی وصیت کر دے تو شرعاً نافذ العمل ہو سکتی ہے اور اس کے ورثا شرعیت کی رو سے اسے تبدیل کر سکتے ہیں یا نہیں جبکہ بہت سے ورثا کی حالت بھی ناگفتہ بہ ہے اور ضرورت مند ہیں ۔

(2) منسلک وصیت پر تمام ورثاء اپنے جائز حصہ سے دست بردار ہو گئے تھے لیکن اب تمام ورثا یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وصیت غلط ہے اور میت پر سے بوجھ ختم کرنے کی خاطر تمام لوگ اس وصیت کو ختم کرنا چاہتے ہیں لہٰذا قرآن وسنت کی روشنی میں اس بارے میں فیصلہ دیں کہ آیا ورثا ایسا کر سکتے ہیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد! 

جناب کا گرامی نامہ موصول ہوا جس میں آپ نے وصیت کا مسئلہ دریافت فرمایا ۔ تو گزارش ہے کہ صحیحین میں حدیث ہے کہ:

سعد رضی اللہ عنہ نے کہا اے اللہ کے رسول (ﷺ ) میرے پاس مال ہے اور صرف ایک بیٹی میری وارث ہے تو کیا میں اپنے مال سے دو تہائی (2/3 ) کی وصیت کر دوں ؟ آپﷺنے فرمایا نہیں ۔ سعد  رضی اللہ عنہ نے کہا تو پھر ایک تہائی (1/3) کی وصیت کر دوں ؟ آپﷺنے فرمایا ایک تہائی (1/3) کی وصیت کر لو اور ایک تہائی (1/3) زیادہ ہے۔ الحدیث(بخارى شريف-كتاب الفرائض باب ميراث البنات)

اس حدیث سے ثابت ہوا مرنے والا اپنے ترکہ میں سے زیادہ سے زیادہ ایک تہائی (1/3) کی وصیت کر سکتا ہے ایک تہائی (1/3) سے زائد وصیت کرنے کی اجازت نہیں جب اجازت نہیں تو اگر کسی نے کسی وجہ سے ایک تہائی(1/3) سے زائد وصیت کر دی ہو تو اسے ایک تہائی (1/3) کی طرف رد کر کے اصلاح کی جا سکتی ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

﴿فَمَنۡ خَافَ مِن مُّوصٖ جَنَفًا أَوۡ إِثۡمٗا فَأَصۡلَحَ بَيۡنَهُمۡ فَلَآ إِثۡمَ عَلَيۡهِۚ إِنَّ ٱللَّهَ غَفُورٞ رَّحِيمٞ﴾--بقرة182

’’جو کوئی وصیت کنندہ سے کجروی یا گناہ معلوم کر کے اصلاح کر دے تو اس پر گناہ نہیں بے شک اللہ بڑی بخشش والا نہایت مہربان ہے‘‘

    ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

احکام و مسائل

وراثت کے مسائل ج1ص 403

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ