سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(126) مسجد میں نماز عید

  • 20387
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1128

سوال

(126) مسجد میں نماز عید

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 آج کل مساجد میں نماز عید پڑھنے کا رواج ہے، جب کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آبادی سے باہر کھلے میدان میں عیدین کی نماز ادا کر تے تھے، مسجد میں نماز عید پڑھنے کی شرعی حیثیت واضح کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام کی شان و شوکت کے اظہار کے پیش نظر نماز عیدین آبادی سے باہر کھلے میدان میں پڑھنا ہی مسنون ہے ، جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کر تے ہیں : ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر اور عید الاضحی کے دن عید گاہ کی طرف باہر نکلتے تھے۔ ‘‘[1]

البتہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا موقف یہ ہے کہ اگر علاقے کی مسجد وسیع اور کشادہ ہو تو نماز عید مسجد میں پڑھنا افضل ہے کیونکہ اصل مقصود مر دو خواتین کا اجتما ع ہے اگر وہ مسجد میں ہو سکتا ہے تو آبادی سے باہر نکلنے کی ضرورت نہیں۔ لیکن ہمارے رجحان کے مطابق نماز عیدین آبادی سے باہر کشادہ میدان میں ہی پڑھنا مسنون ہے۔ اگر کوئی عذر مانع ہے تو انہیں مسجد میں ادا کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک روایت مروی ہے کہ ایک دن عید کے موقع پر لو گوں کو بارش نے آ لیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نماز عید مسجد میں پڑھا دی۔ [2]لیکن علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ضعیف قرار دیا ہے۔[3]

لیکن اس کی تائید میں ایک موقوف روایت حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے انھوں نے فرمایا : ’’اے لو گو! بلا شبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لو گوں کو عید گاہ لے جا تے تھے تاکہ وہاں انہیں نماز عید پڑھائیں، یہ بات زیادہ آسان اور وسعت والی تھی ، کیونکہ مسجد میں اتنے لوگ نہیں سما سکتے تھے لیکن اگر بارش ہو تو نماز عید مسجد میں پڑھ لیا کرو کیونکہ یہ زیادہ آسان بات ہے۔‘‘[4]لیکن مسجدمیں حائضہ عورتوں کے لیے مشکل آسکتی ہے کیونکہ مسجد میں ان کے لیے الگ بیٹھنے کا بند و بست نہیں کیا جا سکتا۔ (واللہ اعلم)


[1] مصنف ابن ابی شیبه: ص ۱۸۵، ج ۲۔

[2] ابو داؤد، الصلوة: ۱۱۶۰۔

[3] ضعیف ابی داؤد:۲۴۸۔

[4] سنن بیہقی: ص۳۱۰، ص ۳۔ 

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:147

محدث فتویٰ

تبصرے