سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(121) خطیب کا حاضرین کو سلام کہنا

  • 20382
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 791

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اکثر خطبا حضرات کو دیکھا گیا ہے کہ وہ خطبہ شروع کر نے سے قبل حاضرین کو السلام علیکم کہتے ہیں، کیا اس عمل کی کوئی دلیل ہے ، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

: خطیب کا جمعہ سے قبل حاضرین کو سلام کہنا مستحب عمل ہے۔ چنانچہ امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس سلسلہ میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:’’ جب امام منبر پر چڑھے تو بیٹھنے سے قبل لو گوں کو سلام کہے۔ ‘‘ پھر انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل نقل کیا ہے : حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر پر چڑھتے تو حاضرین کو سلام کہتے۔[1]

پھر انھوں نے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت بھی بیان کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب منبر کے قریب آ تے تو آس پاس بیٹھنے والوں کو سلام کہتے اور جب منبر پر چڑھتے تو حاضرین کی طرف منہ کر کے لو گوں کو سلام کہتے۔ [2]حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی مذکورہ روایت کو امام ابن ماجہ رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنی سنن میں نقل کیا ہے۔ [3]

یہ روایات سند کے اعتبار سے کچھ کمزور ہیں، لیکن دیگر شواہد و متابعات کی بنا پر کم از کم اصل عمل کی مشروعیت ثابت ہو تی ہے۔ ہمارے کچھ معاصرین نے شرح السنۃ کی تحقیق کر تے ہوئے حاشیہ میں دیگر شواہد کا ذکر کیا ہے جو مصنف عبد الرزاق اور مصنف ابن ابی شیبہ میں موجود ہیں۔ نیز انھوں نے حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ دونوں حضرات اس پر عمل کر تے تھے۔[4]

نیز امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ، حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ کا یہی عمل نقل کیا ہے۔[5] علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ مرحوم نے مذکورہ روایت کو حسن قرار دیا ہے۔ [6]

ہمارے رجحان کے مطابق ان تمام مر ویات و آثار کو جمع کیا جائے تو معلوم ہو تا ہے کہ خطیب کا جمعہ سے قبل سلام کہنا مستحب و مندوب ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] بیہقی: ص۲۰۴، ج۳۔

[2] بیہقی: ص۲۰۴، ج۳۔

[3] ابن ماجه،اقامةالصلوٰة: ۱۱۰۹۔

[4] بیہقی: ص۴۲۵، ج۴۔

[5] بیہقی ص۲۰۵ ج ۳۔

[6] الاجوبة النافعة، ص۵۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:143

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ