السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
لو گوں میں مشہور ہے کہ صبح کی اذان میں جو الصلوٰۃ خیر من النوم کہا جا تاہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں بلکہ ان الفاظ کا اضافہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا تھا، اس میں کہاں تک صداقت ہے ، وضاحت فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دین اسلام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں ہی مکمل ہو چکا تھا، لہٰذا دین اسلام کا کوئی حصہ بھی آپ کے بعد مکمل نہیں ہوا ۔ صورت مسؤلہ میں الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تجویز کر دہ ہیں جو آپ نے اذان فجر میں کہلائے تھے۔ چنانچہ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’سنت میں سے ہے کہ جب مؤذن ، اذان فجر میں حی علی الفلاح کہے تو الصلوٰۃ خیر من النوم دو دفعہ کہے۔[1]
واضح رہے کہ جب کوئی صحابی سنت کا لفظ استعمال کرے جیسا کہ مذکورہ روایت میں حضرت انس رضی اللہ عنہ نے کیا ہے تو اس سے مراد مر فوع حدیث ہو تی ہے ۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ صبح کی اذان میں الصلوٰۃ خیر من النوم کہنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے،یہ اضافہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نہیں کیا۔ اسی طرح حضرت ابو محذورہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اذان سکھائی۔ اس روایت میں بھی صراحت ہے کہ الصلوٰۃ خیر من النوم ،الصلوٰۃ خیر من النوم کے الفاظ صبح کی پہلی اذان میں کہے جاتے تھے۔ [2]
واضح رہے کہ متعدد احادیث میں اقامت کو بھی اذان کہا گیا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے:’’ہر دو اذانوں کے درمیان نماز ہے۔‘‘ [3]
مذکورہ حدیث میں پہلی اذان سے مراد اذان تہجد نہیں جیسا کہ کچھ اہل علم نے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے بلکہ اس پہلی اذان سے مراد صبح صادق کے بعد والی اذان ہے اور اقامت کے مقابلہ میں پہلی اذان کہا گیا ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] بیہقی:ص۴۲۳،ج۱۔
[2] صحیح ابن خزیمه، ص ۲۰۱،ج۱۔
[3] بخاری، الاذان:۶۲۴۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب