سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(106) نماز کے لیے امام کی صفات

  • 20367
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 981

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز کے لیے کس قسم کے شخص کو امام بنایا جائے، نیز جب اصل امام موجود نہ ہو تو کیا کوئی بھی دوسرا آدمی جماعت کراسکتا ہے یا کسی خاص صفات کے حامل شخص کو امام بنانا چاہیے، قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 نماز کو دین اسلام میں بڑی اہمیت حاصل ہے، اس کی جماعت کے لیے کسی ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو کم از کم تین بنیادی صفات کا حامل ہو جو حسبِ ذیل ہیں۔

1۔ اس کا عقیدہ صحیح اور قرآن و حدیث کے مطابق ہو ، کیونکہ مشرک اور کافرکے پیچھے نماز پڑھنا شرعاً جائز نہیں۔ مشرکین اور کفارکے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ہم ان کے اعمال کا جائزہ لینے کے لیے آئیں تو انہیں بکھرے ہوئے غبار کی طرح بنا دیں۔‘‘[1]

اس آیت سے معلوم ہوا کہ مشرکین اور کفار کا کوئی عمل بھی اللہ کے ہاں قبول نہیں ہو گا، نماز جیسا اہم عمل کیسے قبول کیا جائے گا، لہٰذا امام کو صحیح العقیدہ ہونا چاہیے۔

2۔ قرآن کریم اسے زیادہ یاد ہو اور مخارج و صفات کی خوب رعایت کرنے والا ہو، وہ قرآن کریم کی صحیح لب و لہجے سے تلاوت کرتا ہو، جیسا کہ حدیث میں ہے:’’لو گوں کی امامت وہ شخص کرائے جو کتاب اللہ کو زیادہ پڑھنے والاہو اور اگر قرأت میں برابر ہوں تو ایسا شخص امامت کرائے جو سنت کا زیادہ علم رکھتا ہو۔ ‘‘[2]

3۔ وہ اچھے اخلاق اور صفات ستھرے کر دار کا حامل ہو یعنی وہ لو گوں کو مانوس کرنے والا ہو اور متنفر کرنے والا نہ ہو ۔ کیونکہ اگر کوئی بد اخلاق ہے اور لوگ اس سے بیزار ہیں تو اس کی اپنی نماز محل نظر ہے چہ جائیکہ وہ امامت کا اہل ہو۔ حدیث میں ہے کہ تین آدمیوں کی نماز اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتے: پہلا وہ شخص جو امامت کے لیے کسی قوم کے آگے بڑھے لیکن لوگ اسے نا پسند کر تے ہوں۔ [3]

اگر مقررہ امام موجود نہ ہو تو اس کا انتظار کرنا چاہیے، اگر وہ دستیاب نہ ہو تو حاضرین میں سے امامت کے فرائض وہ شخص ادا کرے جسے قرآن زیادہ یاد ہو اور وہ مخارج و صفات کا خیال رکھتے ہوئے قرآن کی تلاوت کر تا ہو۔ لیکن امام راتب موجود ہے تو اسے ہی جماعت کرانی چاہیے ، اگرچہ حاضرین میں کچھ افراد اس سے زیادہ قرآن یاد رکھتے ہوں۔ ایسے حالات میں امامت وہی کرائے جو اس کے لیے تعینات ہے، قرآن و حدیث کے متعدد دلائل سے اس کی تائید ہو تی ہے۔ (واللہ اعلم)


[1] الفرقان: ۲۳۔

[2] صحیح مسلم، المساجد:۶۷۳۔

[3] ابو داؤد، الصلوٰة: ۵۹۳۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:129

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ