سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(105) ننگے سر سجدہ تلاوت

  • 20366
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 806

سوال

(105) ننگے سر سجدہ تلاوت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

میں اپنے گھر میں قرآن مجید کی تلاوت کر تی ہوں، بعض اوقات سجدہ تلاوت آ جا تا ہے تو کیا سجدہ تلاوت کے لیے با وضو ہونا ضروری ہے یا یہ بھی لازمی ہے کہ سجدہ تلاوت کے وقت میرا سر ڈھکا ہوا ہو ، وضاحت فرما دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

درج ذیل حدیث سے سجدہ تلاوت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’جب ابن آدم کسی آیتِ سجدہ کی تلاوت کر تا ہے اور پھر سجدہ کرتا ہے تو شیطان روتا ہوا دور ہو جا تا ہے اور کہتا ہے کہ ہائے میری ہلاکت ! ابن آدم کو سجدے کا حکم ملا تو اس نے سجدہ کر لیا، اس لیے اسے جنت ملے گی اور مجھے سجدے کا حکم دیا گیا تو میں نے انکار کر دیا، اس لیے میرے لیے جہنم ہے۔[1]

اس حدیث سے سجدہ تلاوت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے ، حتیٰ کہ یہ سجدہ ممنوع اوقات میں بھی کیا جا سکتا ہے ، کیونکہ سجدہ تلاوت کا ایک سبب ہے اور سبب والی ہر نماز ممنوعہ اوقات میں بھی ادا کی جا سکتی ہے۔ راجح مسلک کے مطابق سجدہ تلاوت کے لیے نماز کا حکم نہیں چنانچہ اسے وضو کے بغیر بھی ادا کیا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے کہ وہ بغیر وضو کے سجدہ تلاوت کر لیتے تھے۔[2]

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت کیا ہے کہ سجدہ تلاوت کے لیے نماز کی شروط نہیں ہیں۔ اس کی دلیل حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورۃ نجم کی تلاوت کر تے ہوئے آیت سجدہ پر سجدہ کیا تو آپ کے ساتھ مسلمانوں، مشرکوں ، جنوں اور انسانوں نے بھی سجدہ کیا۔ [3]

حالانکہ مشرک پلید ہے اور اس کا وضو بھی نہیں ہو تا، بہر حال سجدہ تلاوت کے لیے باوضو ہونا ضروری نہیں۔ اس طرح گھر میں تلاوت کر تے وقت اگر کسی عورت کا سر ننگا ہو گیا تو اسی حالت میں سجدہ کیا جا سکتا ہے ، اس میں چنداں حرج نہیں اگرچہ بہتر اور افضل ہے کہ سر ڈھانپ کر سجدہ کیا جائے۔ (واللہ اعلم)


[1] مسلم، الایمان: ۲۴۴۔

[2] صحیح بخاری، سجود القرآن : قبل حدیث نمبر ۱۰۷۱۔

[3] صحیح بخاری، سجود القرآن:۱۰۷۱ْ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:129

محدث فتویٰ

تبصرے