السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کتب احادیث میں مروی کچھ روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ سجدہ سہو کے بعد تشہد بھی پڑھنا چاہیے ، پھر سلام پھیرا جائے ، اس کے متعلق راجح قول کی نشاندہی کریں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سجدہ سہو کے بعد تشہد پڑھنے کے متعلق اہل علم کا اختلاف ہے، اگر سلام سے پہلے سجدہ سہو کیا جائے تو جمہور اہل علم کا موقف ہے کہ تشہد کا اعادہ نہ کیا جائے اور اگر سجدہ سہو سلام کے بعد ادا ہو تو اس میں اختلاف ہے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا رجحان ہے کہ تشہد کے بغیر ہی سلام پھیر دیا جائے۔ چنانچہ آپ نے صحیح بخاری میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :’’شخص سجدہ سہو کے بعد تشہد نہیں پڑھتا۔ ‘‘[1]
پھر آپ نے حضرت انس رضی اللہ عنہ اور جناب حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ وہ سجدہ سہو کے بعد تشہد نہیں پڑھتے تھے اور حضرت قتادہ رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ بھی سجدہ سہو کے بعد تشہد نہ پڑھنے کے قائل تھے۔ بہر حال کسی صحیح حدیث میں سجدہ سہو کے بعد تشہد پڑھنے کا ذکر نہیں اور جن روایات میں تشہد کا ذکر ہے وہ صحیح اور قابل حجت نہیں۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک مر فوع روایت بھی ذکر کی ہے جس میں سجدہ سہو کے بعد تشہد پڑھنے کا ذکر نہیں۔ [2]
اس حدیث کے بعد مسلمہ بن علقمہ کا بیان ہے کہ میں نے امام محمد بن سیرین رحمۃ اللہ علیہ سے عرض کی کہ کیا سجدہ سہو کے بعد تشہد ہے ؟ انھوں نے فرمایا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی اس حدیث میں تشہد کا ذکر نہیں ، لیکن اشعث بن عبد الملک کی روایت میں تشہد پڑھنے کا ذکر ہے۔[3]
روایت میں اضافہ کو علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے شاذ قرار دیا ہے۔ [4]
اور حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث میں بھی تشہد پڑھنا آیا ہے۔[5]
لیکن حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ان ہر دو روایات کو نا قابلِ حجت کہا ہے۔ [6]
صحیح روایات میں سجدہ ہائے سہو کے بعد تشہد پڑھے بغیر سلام پھیرنے کا ذکر ہے لہٰذا اسی کو اختیار کرنا چاہیے ، امام ابنتیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نے اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث کرنے کے بعد اسی موقف کو اختیار کیا ہے۔[7]
[1] بخاری، السہو باب نمبر ۴۔
[2] بخاری، السہو:۱۲۲۸۔
[3] ابو داؤد الصلوٰۃ:۴۸۲۔
[4] ارواء الغلیل، ص ۱۳۰،ج۲۔
[5] مسند اما م احمد ، ص ۴۲۸،ج۱۔
[6] فتح الباری، ص۱۲۹،ج۳۔
[7] مجموع الفتاویٰ، ص ۴۸،ج۲۳۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب