السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہمارے ائمہ کرام جمعرات کے دن نماز مغرب میں سورۃ الکافرون اور سورۃ الاخلاص پڑھنے کا التزام کر تے ہیں اور اس انداز سے قرأت کرنے کو سنت کا درجہ دیا جا تا ہے، اس کی شرعی حیثیت کیاہے ؟ نیز اس پر التزام کرنا درست ہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن کریم کی کوئی بھی سورت کسی بھی نماز میں پڑھنا جائز ہے ، چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے :’’دو سورتوں کو ایک رکعت میں جمع کرنا ، سورتوں کی آخری آیات پڑھنا، ایک سورت کو دوسری سے پہلے پڑھنا یعنی تر تیب کے بغیر پڑھنا اور سورت کی ابتدائی آیات پڑھنا۔‘‘[1]
لیکن اپنی طرف سے کسی نماز میں مخصوص سورتوں کا پڑھنا اور اسے سنت کا درجہ دے کر اس پر التزام کرنا انتہائی محل نظر ہے۔ سوال میں ذکر کیا گیا ہے کہ جمعرات کے دن مغرب کی نماز میں سورۃ الکافرون اور سورۃ الاخلاص پڑھی جا تی ہیں، غالباً اس التزام کی بنیاد درج ذیل دو احادیث ہیں۔
1۔حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب میں قل یا ایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد تلاوت کر تے تھے۔ [2]
2۔حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کی رات نماز مغرب میں قل یا ایھا الکافرون اور قل ھو اللہ احد پڑھاکر تے تھے۔ ‘‘[3]
امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :’’نماز مغرب میں قرأت کی مقدار۔‘‘
ان احادیث کے متعلق ہمارے ملا حظات درج ذیل ہیں: پہلی بات یہ ہے کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں دن کی تعیین نہیں، اس میں مطلق طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بیان ہوا ہے کہ آپ نماز مغرب میں سورۃ الکافرون اور سورۃ الاخلاص پڑھتے تھے، دن کی تعیین خود ساختہ ہے، پھر یہ دونوں روایات محدثین کے قائم کر دہ معیار صحت پر پوری نہیں اتر تیں۔ چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں: ’’حدیث ابن عمر رضی اللہ عنہ اگرچہ ظاہری طور پر صحیح معلوم ہوتی ہے لیکن یہ معلول ہے۔ امام دار قطنی رحمۃ اللہ علیہ اس کے متعلق فرماتے ہیں کہ بعض راویوں سے اس میں غلط بیانی ہوئی ہے اور جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں ایک راوی سعید بن سماک متروک ہے۔ محفوظ یہ امر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز مغرب کے بعد دو سنتوں میں ان سورتوں کو پڑھتے تھے۔[4]
نیز حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں راوی احمد بن بدیل ہے جس کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں : ’’صدوق له اوھام‘‘ سچا ہے لیکن اس کے کچھ اوہام ہیں۔[5] علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کے متعلق لکھا ہے کہ انتہائی ضعیف ہے ، پھر اس کے متعلق تفاصیل لکھی ہیں۔ [6]
ان دونوں سورتوں کی قرأت کے متعلق حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان صحیح سند سے ثابت ہے، آپ بیان کر تے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مغرب کے بعد دو رکعتوں میں اور فجر سے پہلے دو رکعتوں میں سورۃ الکافرون اور سورۃ الاخلاص اتنی مرتبہ پڑھتے ہوئے سنا کہ میں شمار نہیں کر سکتا۔ [7]
ان احادیث کے پیشِ نظر ہمارا رجحان یہ ہے کہ نماز مغرب میں سورۃ الکافرون اور سورۃ الاخلاص پڑھی جا سکتی ہیں لیکن اسے سنت کا درجہ دے کر اس پر التزام کرنا انتہائی محل نظر ہے۔ (واللہ اعلم)
[1] بخاری ، الاذان، باب نمبر ۱۰۶۔
[2] ابن ماجه، اقامة الصلوٰة:۸۳۳۔
[3] بیہقی:ص۳۹۱،ج۲۔
[4] فتح الباری،ص۳۲۲،ج۲،طبع دار السلام۔
[5] تقریب، ص۲۸۔
[6] الاحادیث الضعیفه،ص۳۴،ج۲،حدیث نمبر ۵۵۹۔
[7] ترمذی، مواقیت:۴۳۱۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب