سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(76) اللہ تعالٰی کا شکریہ ادا کرنے کے لیے سجدہ کرنا

  • 20337
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-06
  • مشاہدات : 1118

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نعمت کے حاصل ہونے یا کسی مصیبت سے چھٹکارے کے وقت اکیلا سجدہ کرنا شرعاً کیسا ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی نعمت کے ملنے یا بیماری سے شفا پانے ، اسی طرح خوشی و مسرت کے موقع پر سجدہ شکر ادا کرنا جائز ہے۔ امام احمد رحمۃ اللہ علیہ اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف ہے ، ان کا استدلال، درج ذیل احادیث سے ہے:

حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو یمن کی طرف بغرض دعوت و تبلیغ روانہ کیا ، انھوں نے آپ کو بذریعہ خط اطلاع دی کہ اہل یمن مسلمان ہو چکے ہیں ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مکتوب پڑھا تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدے میں گر گئے۔

حضرت عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دفعہ سجدہ کیا اور بڑا طویل سجدہ کیا پھر آپ نے اپنا سر مبارک اٹھایا اور فرمایا کہ میرے پاس حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے تھے، انھوں نے مجھے بشارت دی تو میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرنے کے لیے سجدہ ریز ہو گیا۔ [1]

امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی وضاحت میں لکھا ہے کہ سجدہ شکر میں اس سے زیادہ صحیح اور کوئی حدیث نہیں۔ [2]

حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی خوشخبری ملتی تو آپ اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ میں گِر پڑتے ۔[3]

اما م ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے :’’سجدہ شکر ادا کرنے کا بیان ‘‘

ان احادیث سے معلوم ہو تا ہے کہ کسی نعمت کے حصول کے وقت اکیلا سجدہ ادا کرنا مشروع ہے ، اگرچہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ اور امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں ایسا کرنا نہ مستحب ہے اور نہ مکروہ ، لیکن مذکورہ احادیث اس موقف کی تردید کر تی ہیں۔ (واللہ اعلم)


[1] مستدرك حاکم،ص۵۵۰،ج۱۔

[2] بیہقی،ص۳۷۱،ج۲۔

[3] ابو داؤد، الجہاد: ۲۷۷۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:106

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ