سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(74) نماز عشاء کے بعد سونے سے پہلے وتر پڑھنا

  • 20335
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-25
  • مشاہدات : 1435

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ وتر، نماز تہجد کا حصہ ہیں، چونکہ نماز تہجد سونے کے بعد اٹھ کر پڑھی جا تی ہے اس لیے وتر بھی سونے کے بعد اٹھ کر پڑھنے چاہئیں، انہیں نماز عشا کے متصل بعد پڑھنا درست نہیں ہے۔کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بلا شبہ وتر، نماز تہجد کا حصہ ہیں لیکن اس حصہ کو نماز عشاء کے متصل بعد پڑھنا جائز ہے اگرچہ بہتر یہ ہے کہ انہیں تہجد کے وقت ہی پڑھا جائے لیکن اگر کسی کو اندیشہ ہو کہ وہ صبح نہیں اٹھ سکے گا تو اسے شرعی طور پر اجازت ہے کہ وہ سونے سے پہلے نماز وتر پڑھ لے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا کہ مجھے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتوں کی وصیت کی تھی ، میں زندگی بھر انہیں ترک نہیں کروں گا، وہ یہ ہیں۔ 1ہر مہینے تین روزے (ایام بیض۱۳،۱۴،۱۵)رکھوں۔ 2 چاشت کی دو رکعت ادا کروں۔ 3 وتر پڑھ کر نیند کروں۔ [1]

ایک روایت میں ہے کہ سونے سے پہلے وتر پڑھا کروں۔[2]

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے متعلق بھی احادیث میں ہے کہ وہ عشاء کے بعد نماز وتر پڑھ لیتے تھے جیسا کہ ابن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے نماز عشاء کے بعد ایک رکعت نماز وتر پڑھی۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام آپ کے پاس تھے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے اس کا ذکر کیا تو انھوں نے فرمایا:’’انھوں نے درست کیا ہے کیونکہ وہ ایک فقیہ شخص ہے۔‘‘ [3]

ایک اور حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ بیداری ایک مشکل اور گراں کام ہے، جب تم میں سے کوئی شخص وتر پڑھ لے تو وہ دو رکعت ادا کرے پھر اگر وہ رات کے وقت بیدار ہوجائے تو تہجد پڑھ لے بصورت دیگر یہ دو رکعت اس کے لیے کافی ہیں۔ ‘‘[4]

ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز عشاء کے بعد سونے سے پہلے نماز وتر پڑھنا جائز ہے، اگر کوئی شخص نماز فجرسے پہلے بیدار ہو جائے تو دودو رکعت کر کے مزید نوافل پڑھ سکتا ہے مگر وتر دوبارہ نہ پڑھے۔ (واللہ اعلم)


[1] صحیح بخاری، التہجد:۱۱۷۸۔

[2] صحیح بخاری، الصوم: ۱۸۹۱۔

[3] صحیح بخاری،حدیث نمبر:۳۷۶۵۔

[4] دارمی، الصلوٰة:۱۵۹۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:105

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ