السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا مؤذن ہی تکبیر کہے ؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
شرعی اعتبار سے یہ ضروری نہیں کہ جو اذان کہے وہی تکبیر کہنے کا فریضہ ادا کرے ، کوئی بھی دوسرا شخص تکبیر کہہ سکتا ہے ۔ اس سلسلہ میں حدیث پیش کی جا تی ہے کہ حضرت زیادصدائی رضی اللہ عنہ نے اذان کہی ، جب جماعت کا وقت ہوا تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے تکبیر کہنے کا ارادہ کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس صدائی نے اذان کہی ہے اور جو اذان کہے وہی اقامت کہے ، پھر انھوں نے ہی اقامت کہی۔ ‘‘[1]
لیکن یہ روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہے کیونکہ اس میں عبد الرحمن بن زیاد افریقی نامی راوی ضعیف ہے ۔ چنانچہ امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ یہ حدیث بیان کر نے کے بعد فرماتے ہیں:’’یہ حدیث افریقی سے مروی ہے اور محدثین کے نزدیک یہ راوی ضعیف ہے۔ [2]اس بنا پر موذن کے علاوہ کوئی بھی تکبیر کہہ سکتا ہے ۔ چنانچہ امام ابو داؤد رحمۃاللہ علیہ نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:’’ مؤذن اذان دے اور تکبیر کوئی دوسرا کہے۔‘‘[3]
اسے ثابت کرنے کے لیے حدیث پیش کی ہے کہ عبد اللہ بن زید رضی اللہ عنہ کو خواب میں اذان سکھائی گئی تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی، آپ نے فرمایا: تم یہ کلمات حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بتاؤ، چنانچہ انھوں نے بتائے تو بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی، حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں نے یہ خواب دیکھا اور میں ہی اذان دینے کا خواہش مند تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تم تکبیر کہہ لو‘‘[4]
لیکن یہ حدیث بھی محمد بن عمر راوی کی بنا پر ضعیف ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ اذان دینے والا ہی تکبیر کہے، تاہم ہماری مساجد میں عام طور پر جو صورت حال ہے اس کے پیش نظر مصلحت کا تقاضا یہی ہے کہ موذن کو ہی تکبرکہنے کا پابند بنا دیا جائے۔ صورت مسؤلہ میں چونکہ اذان دینے والا ہی امام ہے، اس لیے اسے چاہیے کہ کسی مناسب شخص کو تکبیر کہنے کا پابند کر دے، اگرچہ وہ خود بھی تکبیر کہہ کر جماعت کرا سکتاہے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابو داؤد، الصلوٰة:۵۱۴۔
[2] ترمذی،الصلوٰة:۱۹۹۔
[3] ابو داؤد،الصلوٰة:باب ۳۰۔
[4] ابو داؤد، الصلوٰة: ۵۱۲۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب