سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(63) کیا نماز تراویح اچھی بدعت ہے؟

  • 20324
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1839

سوال

(63) کیا نماز تراویح اچھی بدعت ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کچھ لوگ بدعت کو تقسیم کر تے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ کچھ بدعات اچھی ہوتی ہیں ۔جبکہ کچھ دوسری بدعات بُری ہیں ، دلیل کے طور پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول پیش کر تے ہیں کہ انھوں نے نماز تراویح کی جماعت کو اچھی بدعت قرار دیا تھا۔ اس کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 بدعت کی تعریف یہ ہے کہ ہر وہ دینی کام جس کا ثبوت قرآن و حدیث میں موجود نہ ہو، ایسا کام اگر ثواب اور عبادت کی نیت سے کیا جائے تو اسے بدعت کہتے ہیں۔ اس قسم کی تمام بدعات بُری اور نحوست ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی آگ میں جانے کا باعث ہے۔ ‘‘[1]

جو حضرات بدعت کی تقسیم کر تے ہیں کہ کچھ بدعات اچھی اور کچھ بُری ہیں ، ان کا یہ موقف انتہائی محل نظر ہے ، بطور دلیل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جو قول پیش کیاجاتا ہے ، اس سے اس مؤقف کے لیے دلیل لینا بھی صحیح نہیں ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قول کا  پس منظر حضرت عبد الرحمن بایں طور بیان کر تے ہیں کہ میں رمضان کی ایک رات حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مسجد میں گیا، سب لوگ متفرق اور منتشر تھے، کوئی اکیلا نماز پڑھ رہا تھا تو کوئی کسی کے پیچھے کھڑا تھا۔ یہ صورت حال دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’میرے خیال کے مطابق اگر میں تمام لو گوں کو ایک قاری کی اقتدا میں جمع کر دوں تو زیادہ مناسب ہوگا۔ ‘‘

چنانچہ انھوں نے اسی عزم و ارادہ کے ساتھ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو ان کا امام مقرر کر دیا۔ پھر ایک رات جب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ نکلا تو دیکھا کہ لوگ اپنے امام کے پیچھے نماز تراویح پڑھ رہے ہیں، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ صورت دیکھ کر فرمایا:’’یہ نیا طریقہ بہتر اورمناسب ہے اور رات کا وہ حصہ جس میں لوگ سو جا تے ہیں، اس حصے سے بہتر ہے جس میں یہ نماز پڑھ رہے ہیں۔ ‘‘ آپ کی مراد رات کے آخری حصہ کی فضیلت بیان کرنا تھی کیونکہ یہ نماز تراویح رات کے پہلے حصہ میں ہی پڑھ لیتے تھے۔[2]

واضح رہے کہ نماز تراویح با جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی پڑھی گئی جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے ، جسے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے، آپ فرماتی ہیں:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت گھر سے نکلے، آپ نے مسجد میں نماز ادا کی اور لوگوں نے بھی آپ کی اقتدا میں نماز ادا کی۔ دوسری رات آپ نے یہ نماز پڑھائی تو نمازیوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی، تیسری یا چوتھی رات تو یہ تعداد ایک بڑے اجتماع کی صورت اختیار کر گئی لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس رات نماز پڑھانے کے لیے تشریف نہ لائے ، صبح کے وقت آپ نے فرمایا: مجھ پر آپ کا ذوق اور شوق مخفی نہیں تھالیکن یہ خدشہ میرے باہر آنے کے لیے رکاوٹ بنا رہا کہ کہیں یہ نماز تم پر فرض نہ کر دی جائے پھر تم اسے ادا کرنے سے قاصر رہو۔ اس روایت کے آخر میں ہے کہ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات ہو گئی لیکن معاملہ اسی طرح رہا۔ [3]

اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز تراویح با جماعت مشروع ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اس اندیشہ کے پیش نظر چوتھی رات جماعت سے گریز کیا کہ مبادا یہ نماز لو گوں پر فرض ہو جائے پھر لوگ اس کی پابندی نہ کر سکیں۔ پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اور وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا تو جس چیز سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خائف تھے اس سے امن ہو گیا تو با جماعت نماز تراویح کا اہتمام کر دیا گیا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سنت کو زندہ کر تے ہوئے اس نماز کو با جماعت ادا کرنے کا حکم دے دیا۔ اب سوال یہ پیدا ہو تاہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں نماز تراویح با جماعت ادا کی گئی اگرچہ تین دن تک ایسا ہوا پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ با جماعت ادا کر تے تھے تو پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسے بدعت کے نام سے موسوم کیوں کیا اس کا جواب یہ ہے کہ آپ نے لغوی طور پر اسے بدعت کہا ہے۔ شرعی اعتبار سے اسے بدعت نہیں کہا، کیونکہ ان کے دور حکومت میں اس کا خصوصی اہتمام کیا گیا جبکہ پہلے ا س قسم کا اہتمام نہیں تھا۔ ان کے لیے یہ کام نیا تھا اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہو چکا تھا لیکن اس قدر اہتمام نہیں تھا۔ اسے بدعت کہنے کی وجہ یہ ہر گز نہیں تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ بدعت کی مزعومہ تقسیم سے لو گوں کو مطلع کرنا چاہتے تھے کہ بدعات دو قسم کی ہو تی ہیں، ایک بدعت حسنہ اور ایک بدعت سیئہ جیسا کہ بعض حضرات کا موقف ہم پہلے بیان کر آئے ہیں۔ ہمارے نزدیک ہر قسم کی بدعت گمراہی اور باعث نحوست ہے جیسا کہ حدیث کے حوالے سے پہلے بیان ہو چکا ہے۔

دراصل بدعت کی اس غلط تقسیم سے بہت ہی خرافات کو دین میں داخل کر دیا گیا ہے بلکہ بدعت حسنہ کے نام سے ان حضرات نے ایک نیا دین متعارف کروایا ہے جس میں قل خوانی، چہلم، میلاد اور گیارہویں وغیرہ بر سر فہرست ہیں۔ بہر حال حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ فرمان کا ذکر کردہ بدعات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)


[1]  مسلم، الاقضیہ:۴۴۹۲۔

[2]  صحیح بخاری، صلوٰة التراویح:۲۰۱۰۔

[3]  صحیح بخاری، التراویح:۲۰۱۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:93

محدث فتویٰ

تبصرے