سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(60) نماز سے پہلے اور بعد کی سنتیں

  • 20321
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-03
  • مشاہدات : 1928

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 ہمارے ہاں دیکھا جا تا ہے کہ نماز ادا کر تے وقت صرف فرض پڑھنے کو کافی سمجھا جا تا ہے ، سنتیں پڑھنے کی طرف توجہ بہت کم ہو تی ہے ، نو جوان طبقہ تو اس سے بہت پہلو تہی کرتا ہے ، ان سنتوں کی اہمیت واضح کریں، اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر دے ۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

دین اسلام میں نماز سے پہلے اور بعد والی سنتوں کی بہت اہمیت ہے، جیسا کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے :’’جو دن اور رات میں بارہ رکعات پڑھتا ہے اس کے لیے جنت میں ایک گھر تیار کیا جا تا ہے۔

حضرت ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے جب سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد سنا ہے تو میں نے انہیں کبھی ترک نہیں کیا۔ (صحیح مسلم، صلوۃ المسافرین:۷۲۸) ترمذی میں ان بارہ رکعات کی تفصیل اس طرح ہے کہ چار رکعت ظہر سے پہلے، دو رکعت ظہر کے بعد، دو رکعت مغرب کے بعد، دو رکعت عشا کے بعد اور دو رکعت نماز فجر سے پہلے ۔ [1]

محدثین کی اصطلاح میں ان بارہ رکعات کو ’’سنتِ مؤکدہ ‘‘ کہا جا تا ہے ۔ ایک مسلمان کو ان کی ادائیگی میں سستی نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ ایک حدیث میں ہے کہ جب مسلمان نماز پڑھتا ہے تو خشوع میں کمی بیشی کے اعتبار سے اس کی نماز دسواں ، نواں ، آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا، یا نصف حصہ لکھا جاتا ہے۔[2]

نماز سے پہلے اور بعد والی سنتیں نماز کی مذکورہ کمی کو پورا کر تی ہیں، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

’’قیامت کے دن لو گوں کے اعمال میں سے پہلے نماز کا حساب ہو گا، اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرمائے گا کہ میرے بندے کی نماز دیکھو، اس میں کس قدر کمی بیشی ہے ، کیا اس نے پوری ادا کی تھی یا ناقص پڑھی تھی، اگر مکمل تھی تو پوری نماز کا ثواب لکھاجا تا ہے اور اگر اس میں کوئی کمی تھی تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میرے اس بندے کی فرائض کے علاوہ کوئی دوسری تمام بھی ہے، اگر اس کی فرض کے علاوہ کوئی دوسری نماز ہوئی تو فرائض کی کمی کو اس سے پورا کیا جائے گا، اسی طریقہ کے مطابق دوسرے اعمال کی جانچ پڑتال ہو گی۔[3]

اس حدیث کے پیش نظر انسان کو فرائض کی ادائیگی میں کسی بھی تقصیر سے پر ہیز کرنا چاہیے، نیز نوافل کا بھی اہتمام کرنا چاہیے کیونکہ ان سے فرضوں کی کمی پوری کی جائے گی، خاص طور پر سنن راتبہ جن کا سوال میں ذکر ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت متواترہ ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض اوقات تاخیر ہونے پر ان کی قضا بھی ادا کی ہے۔

ہمارے رجحان کے مطابق سنن و نوافل کی پابندی سے فرائض کی حافظت ہوتی ہے، جو شخص ان سنتوں میں کوتاہی کر تاہے، عین ممکن ہے کہ وہ فرائض کی ادائیگی میں غفلت کا شکار ہو جائے۔

حضرت ربیع بن مالک رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تھا کہ جنت میں آپ کی رفاقت کا طلب گار ہوں تو آپ نے اسے کثرت نوافل ادا کرنے کی تلقین فرمائی تھی۔[4] حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے عمل کا سوال کیا تھا جو جنت میں داخلے کا باعث ہو تو آپ نے انہیں بکثرت نوافل ادا کرنے کے متعلق کہا تھا۔[5]ان احادیث کے پیش نظر ایک نمازی کو چاہیے کہ وہ فرائض کے ساتھ سنتوں کی ادائیگی کا بھی اہتمام کرے ، اور ان میں کسی قسم کی کوتاہی کا شکار نہ ہو۔ (واللہ اعلم)


[1] ترمذی، الصلوٰة:۴۱۵۔

[2] مسند امام احمد،ص۳۲۱،ج۴۔

[3] ابو داؤد، الصلوٰة:۸۶۴۔

[4] مسند امام احمد،ص۵۹،ج۴۔

[5] صحیح مسلم، صلوٰة المسافرین:۴۸۸۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:89

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ