السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک مسئلہ کی وضاحت مطلوب ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں مسئلہ کی وضاحت فرمائیں؟
میرے والد محترم پاکستان بننے سے پہلے فوت ہوئے تھے میرے والد کی وفات کے وقت ملکی قانون اور شریعت کے قانون دونوں کے مطابق وراثت تقسیم کی جا سکتی تھی لیکن میری والدہ محترمہ نے تمام جائیداد میرے چھوٹے بھائی کے نام لگوا دی جبکہ میں اور میری بڑی بہن اور میرا بھائی تینوں اس وقت نابالغ تھے اب اس واقعہ کو پچاس سال سے اوپر گزر چکے ہیں اس عرصہ میں میں نے اور میری بڑی بہن نے اپنے حصہ کا مطالبہ نہیں کیا ہے اور نہ ہی میں نے اور میری بہن نے اپنا حصہ معاف کیا ہے اور نہ ہی ہبہ کیا ہے کیا اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد اور جائیداد اپنے بھائی کے نام ہو جانے کے بعد ہم اپنے بھائی سے اپنے حصے کا مطالبہ کر سکتے ہیں یا نہیں اور کیا جن لوگوں نے شریعت کے قانون کے ہوتے ہوئے ملکی قانون کے مطابق جائیداد میرے بھائی کے نام لگوا دی تھی وہ گناہگار ہیں اگر وہ گناہگار ہیں تو اب ان کے فوت ہو جانے کے بعد ان کے اس گناہ کا بوجھ ان سے اتارنے کا کوئی طریقہ ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
صورت مسئولہ میں آپ اور آپ کی بڑی بہن دونوں اپنے بھائی سے اپنا حصہ طلب کر سکتی ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿يُوصِيكُمُ ٱللَّهُ فِيٓ أَوۡلَٰدِكُمۡۖ لِلذَّكَرِ مِثۡلُ حَظِّ ٱلۡأُنثَيَيۡنِۚ﴾--النساء11
’’حکم کرتا ہے تم کو اللہ تمہاری اولاد کے حق میں کہ ایک مرد کا حصہ ہے برابر دو عورتوں کے‘‘ الآیۃ پھر آپ نے اور آپ کی بہن نے اپنا حصہ اپنے بھائی کو نہ ہبہ کیا ہے اور نہ ہی معاف کیا ہے اس لیے آپ کا اور آپ کی بہن کا اپنے حصہ کا مطالبہ درست ہے اور کتاب وسنت کے مطابق ہے اور آپ کے بھائی کا فرض ہے کہ وہ آپ کو اور آپ کی بہن کو دونوں کا حصہ واپس کر دے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿لِّلرِّجَالِ نَصِيبٞ مِّمَّا تَرَكَ ٱلۡوَٰلِدَانِ وَٱلۡأَقۡرَبُونَ وَلِلنِّسَآءِ نَصِيبٞ مِّمَّا تَرَكَ ٱلۡوَٰلِدَانِ وَٱلۡأَقۡرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنۡهُ أَوۡ كَثُرَۚ نَصِيبٗا مَّفۡرُوضٗا﴾--النساء7
’’مردوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے اور عورتوں کا بھی حصہ ہے اس میں جو چھوڑ مریں ماں باپ اور قرابت والے تھوڑا ہو یا زیادہ ہو حصہ مقرر کیا ہوا ہے‘‘ اس طرح بھائی بھی گناہ سے بچ جائے گا اور والدہ بھی بھائی کے نام لگوانے کے گناہ سے بچ جائے گی۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
﴿فَمَنۡ خَافَ مِن مُّوصٖ جَنَفًا أَوۡ إِثۡمٗا فَأَصۡلَحَ بَيۡنَهُمۡ فَلَآ إِثۡمَ عَلَيۡهِۚ﴾--بقرة182
’’پھر جو کوئی خوف کرے وصیت کرنے والے سے طرف داری کا یا گناہ کا پھر ان میں باہم صلح کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں‘‘ تو تقسیم میراث میں تو بطریق اولیٰ اصلاح میں کوئی گناہ نہیں بلکہ گناہ سے بچائو ہے۔
ہاں بھائی اور والدہ گناہ سے اس صورت میں بھی بچ سکتے ہیں کہ دونوں بہنیں اپنا حصہ اب کے اپنے بھائی کو ہبہ یا معاف کر دیں وہ بھی اپنی رضا ورغبت سے بلا کسی جبر واکراہ اور بغیر کسی معاشرتی دبائو کے تو بھی والدہ اور بھائی گناہ سے بچ جائیں گے۔ ان شاء اللہ سبحانہ وتعالیٰ
رہی ابن ماجہ کی عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث :
«إِنَّ رَسُوْلَ اﷲِ ﷺ قَالَ : مَا کَانَ مِنْ مِيْرَاثٍ قُسِمَ فِی الْجَاهِلِيَّةِ فَهُوَ عَلٰی قِسْمَةِ الْجَاهِلِيَّةِ ، وَمَا کَانَ مِنْ مِيْرَاثٍ أَدْرَکَهُ الْإِسْلاَمُ فَهُوَ عَلٰی قِسْمَةِ الْاِسْلاَمِ»مشكوة-باب الفرائض-الفصل الثالث
’’رسول اللہﷺ نے فرمایا جو میراث جاہلیت میں تقسیم کی گئی تو وہ جاہلیت کے طریقہ پر تقسیم ہو گئی اور جس میراث نے اسلام کو پا لیا وہ اسلام کے طریقہ پر تقسیم ہو گی‘‘ تو وہ بھائی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچاتی اولاً تو اس لیے کہ اس کی سند میں ابن لہیعہ نامی راوی ضعیف ہے کما فی الترمذی ۔ ثانیاً اگر دیگر شواہد کی بنیاد پر حدیث کو حسن لغیرہ تسلیم کر بھی لیا جائے تو اس لیے کہ صورت مسئولہ میں میراث رسول اللہﷺ کے فرمان :
«وَمَا کَانَ مِنْ مِيْرَاثٍ أَدْرَکَهُ الْإِسْلاَمُ فَهُوَ عَلٰی قِسْمَةِ الْإِسْلاَمِ»
کے مطابق اسلام کے میراث کے اصول پر تقسیم ہو گی آپﷺکے فرمان :
«مَا کَانَ مِنْ مِيْرَاثٍ قُسِمَ فِی الْجَاهِلِيَّةِ»
کے مطابق جاہلیت کے قانون پر تقسیم نہیں ہو گی کیونکہ جاہلیت عامہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ہی ختم ہو چکی ہے اور جاہلیت خاصہ بھی صورت مسئولہ میں ختم ہے کیونکہ مورث اور وارث سب مسلمان ہیں لہٰذا والدہ کا بہنوں کے حصہ کو بھائی کے نام لگوانا خواہ کسی ملکی قانون کے تحت ہی کیوں نہ ہو سراسر غلط اور گناہ ہے جس کی اصلاح ضروری ہے بہنوں کو واپس دینے کی صورت میں ہو خواہ بہنوں کے ہبہ یا معاف کر دینے کی صورت میں ہو۔
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب