سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(42) اذان سے پہلے صلوۃ و سلام پڑھنا

  • 20303
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3182

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

 میری ایک بریلوی عالم دین سے گفتگو ہوئی تو اس نے ابو داؤد کے حوالے سے بتایا کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اذان سے پہلے ایک دعا پڑھتے تھے، جب دعا پڑھی جا سکتی ہے تو صلوٰۃ و سلام پڑھنے میں کیا حرج ہے ، اس مسئلہ کی وضاحت فرمائیں اور ابو داؤد کی حدیث کا حوالہ دیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

: اذان سے پہلے الصلوٰۃ و السلام پڑھنا بدعت ہے، اس کا قرآن و حدیث میں کوئی ثبوت نہیں ہے ، ہاں اذان کے بعد درود پڑھنے کا ذکر احادیث میں آتا ہے ، سوال میں ابو داؤد کے حوالے سے جس حدیث کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ یہ ہے : ’’ حضرت عروۃ بن زبیر، بنو نجار کی ایک عورت سے بیان کر تے ہیں، اس نے کہا کہ میرا گھر مسجد کے اطراف کے گھروں سے اونچا تھا، حضرت بلال رضی اللہ عنہ فجر کی اذان اسی گھر کی چھت پر دیا کرتے تھے ، وہ سحر کے وقت آ کر اس پر بیٹھ جاتے اور صبح صادق کو دیکھتے رہتے ، جب صبح کو طلوع ہوتا دیکھتے تو انگڑائی لیتے اور یہ دعا پڑھتے۔ ’’اے اللہ ! میں تیری تعریف کرتا ہوں اور قریش پر تجھ ہی سے مدد چاہتا ہوں کہ وہ تیرے دین کو قائم کریں۔ ‘‘

وہ خاتون بیان کر تی ہیں کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ یہ دعا پڑھنے کے بعد اذان کہتے، اللہ کی قسم! مجھے معلوم نہیں کہ بلال نے کسی رات بھی یہ کلمات چھوڑے ہوں۔[1]

واضح رہے کہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے اذان سے پہلے دعائیہ کلمات کسی بھی طرح اذان کا حصہ نہ تھے بلکہ یہ ایک عام طرح کی دعا تھی جس میں وہ کافی دیر تک مشغول رہتے اور صبح صادق کا انتظار کر رہے ہوتے تھے، قریش کی ہدایت کے لیے دعا کرنے کی وجہ یہ تھی کہ اس قبیلے کو عرب کے ہاں بڑی اہمیت حاصل تھی، جب اللہ تعالیٰ نے اس قبیلہ کو ہدایت سے نوازا تو اس کے بعد لوگ فوج در فوج حلقہ بگوش اسلام ہونے لگے۔

حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ان دعائیہ کلمات سے اذان سے پہلے الصلوٰۃ والسلام کہنے کا مسئلہ کشید کرنا انتہائی محل نظر ہے کیونکہ اس کی اگر کوئی اہمیت ہوتی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ ان کلمات کو ضرور کہتے ، بہر حال ہمارے رجحان کے مطابق دورِ حاضر میں اذان سے پہلے الصلوٰۃ والسلام کہنا جائز نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا آپ کے صحابہ کرام سے ثابت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم )


[1] ابو داؤد، الصلوة:۵۱۹۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:78

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ