سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(34) نیند سے وضو ٹوٹنا

  • 20295
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-16
  • مشاہدات : 3200

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

کیا نیند آنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جبکہ حدیث میں ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں نماز عشاء کا اتنا انتظار کرتے کہ غلبۂ نیند کی وجہ سے ان کے سر جھک جاتے مگر وہ از سر نو وضو کئے بغیر نما زپڑھ لیتے تھے۔ وضاحت کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

: نیند آنے سے از سر نو وضو کرنے کے متعلق علماء امت میں بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ کچھ اہل علم کہتے ہیں کہ نیند آنے سے وضو نہیں ٹوٹتا جبکہ اکثریت کا موقف یہ ہے کہ نیند مطلق طور پر ناقضِ وضو ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق نیند آنے سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جبکہ نیند اس قدر گہری ہو کہ انسان کے شعور کو زائل کر دے۔ البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے کہ نیندآنے کے باوجود آپ کا وضو قائم رہتا تھا۔ مطلق نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے اس کے دلائل حسب ذیل ہیں:

1  سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ آنکھیں دُبر کا تسمہ ہیں، لہٰذا جو سو جائے وہ وضو کرے۔‘‘[1]

2  سیدنا صفوان بن عسال رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جنابت کی وجہ سے موزے اتارے جائیں لیکن بول و براز اور نیند کی وجہ سے اتارنے کی ضرورت نہیں۔ ‘‘[2]

اس حدیث سے معلوم ہوا ک نیند احداث میں سے ہے، خاص طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسے بول و براز کے ساتھ ذکر کرنا ، نیند کے ناقض ہونے کا قطعی ثبوت ہے۔ البتہ نیند اور اونگھ میں فرق ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے، جو حسب ذیل ہے:

نیند ایسا ثقیل پردہ ہے جس کا دل پر اچانک آ جانا اسے ظاہری امور کی معرفت سے کاٹ دیتا ہے جبکہ اونگھ میں ایسا نہیں ہوتا کیونکہ وہ ایسا ثقیل ہے جو انسان کو باطنی احوال کی معرفت سے کاٹ دیتا ہے۔ سوال میں جس حدیث کا حوالہ دیا گیا ہے کہ صحابہ کرام نیند کی وجہ سے وضو نہیں کرتے تھے اس سے مراد اونگھ ہے حقیقی نیند نہیں ۔ لہٰذا اگر ایسی نیند آ جائے جس سے انسان کا شعور باقی نہ رہے تو اس قسم کی نیند سے وضو ٹوٹ جاتا ہے جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں اس امر کی صراحت موجود ہے۔ ( واللہ اعلم)


[1] ابن ماجه ، الطھارة : ۴۷۷۔

[2] مسند أحمد ص ۲۳۹ج۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:69

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ