سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(30) ٹخنوں کے نیچے ازار ہونے سے وضو ٹوٹ جانا

  • 20291
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1302

سوال

(30) ٹخنوں کے نیچے ازار ہونے سے وضو ٹوٹ جانا

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک دن ہمارے عالم دین نے یہ مسئلہ بیان کیا کہ اگر انسان با وضو ہو اور اس کی چادر یا شلوار ٹخنوں سے نیچے ہو جائے تو اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے ، کیا واقعی اس سے وضو ٹوٹ جاتا ہے، شرعی حکم سے آگاہ کریں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 اپنی چادر یا شلوار کو ٹخنوں سے نیچے کرنا بہت سنگین جرم ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا جس نے تکبر سے اپنی چادر کو لٹکایا ۔‘‘ [1]

حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تین ا ٓدمیوں سے ہم کلام نہیں ہوں گے اور نہ ان کی طرف نظر رحمت کریں گے اور نہ ہی انہیں پاکیزہ قرار دیں گے بلکہ انہیں درد ناک قسم کے عذاب سے دو چار کریں گے۔ ان میں وہ شخص بھی ہے جو اپنی شلوار یا چادر ٹخنوں سے نیچے کرتا ہے۔ ‘‘[2]

ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اپنی چادر یا شلوار کو ٹخنوں سے نیچے کرنا بڑا گناہ ہے لیکن اس سے وضو نہیں ٹوٹتا ، اس سلسلہ میں درج ذیل روایت بیان کی جاتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکائے نماز پڑھ رہا تھا تو رسول اللہ نے اسے فرمایا: ’’ جا اور وضو کر کے آ‘‘ وہ گیا اور وضو کر کے آیا ، پھر ایک آدمی کے دریافت کرنے پر آپ نے فرمایا: ’’یہ اپنا تہبند لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالیٰ ، تخنوں سے نیچے تہبند لٹکانے والے کی نماز قبول نہیں کرتا۔ ‘‘[3]

لیکن محدثین کرام نے اس روایت کو قابل حجت قرار نہیں دیا۔ [4]

اس بناء پر ٹخنوں سے نیچے چادر یا شلوار لٹکانے والے کا وضو اور نماز تو صحیح ہے لیکن اس ممنوعہ فعل کی وجہ سے وہ سزا کا حقدار ہو گا۔ ( واللہ اعلم)


[1] صحیح البخاري ، اللباس : ۵۷۸۷۔

[2] صحیح مسلم ، الصلوٰة : ۶۳۸۔

[3] سنن أبي داؤد ، الصلوٰة : ۶۳۸۔

[4] نیل الاوطار ص ۵۹۹ج۱۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:65

محدث فتویٰ

تبصرے