سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(29) جنبی کے لئے پانی دستیاب نہ ہو تو

  • 20290
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1067

سوال

(29) جنبی کے لئے پانی دستیاب نہ ہو تو

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اگر کوئی انسان حالتِ جنابت میں ہو اور اسے پانی دستیاب نہ ہو تو اسے کیا کرنا چاہیے، کیا ایسی حالت میں تیمم کر کے نماز پڑھی جا سکتی ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 جب انسان جنبی ہو تو اس پر غسل واجب ہو جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اگر تمہیں جنابت لاحق ہو تو غسل کر کے پاک ہو جایا کرو۔ ‘‘[1]

اگر پانی دستیاب نہ ہو یا اس کے استعمال سے کسی نقصان کا اندیشہ ہو تو تیمم سے کام چلایا جا سکتاہے، قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’ اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضاء حاجت سے فارغ ہوا ہو یا تم اپنی عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمہیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح کر لو یعنی تیمم کرلو۔‘‘[2]

تیمم کرنے سے انسان جنابت سے پاک ہو جاتا ہے اور اس وقت تک پاک رہے گا جب تک اسے پانی نہیں ملتا اور جب اسے پانی مل جائے گا تو اس سے غسل کرنا ضروری ہے۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو الگ تھلگ دیکھا جس نے لوگوں کے ساتھ مل کر نماز ادا نہیں کی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا کہ تم نے نماز کیوں نہیں پڑھی؟ اس نے عرض کیا میں جنابت کی حالت میں ہوں اور یہاں پانی موجود نہیں تو آپ نے اسے فرمایا: ’’ مٹی کو استعمال کر لو، تمہارے لیے یہی کافی ہے۔‘‘ اس کے بعد پا نی مل گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پانی دیتے ہوئے فرمایا: ’’ جاؤ اور اسے اپنے اوپر ڈال لو۔‘‘ [3]

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تیمم کرنے والے کو جب پانی مل جائے تو اس کے لئے پانی سے طہارت حاصل کرنا ضروری ہے خواہ اس نے جنابت کی وجہ سے تیمم کیا ہو۔ جنابت سے تیمم کرنے والا اس وقت تک پاک ہے جب تک وہ دوبارہ جنبی نہیں ہوتا یا اسے پانی نہیں ملتا۔ اگر اسے پانی مل جائے تو اس وقت پانی سے طہارت حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور تیمم سے جو عبادات کی ہیں انہیں دوبارہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں۔


[1] المائدة : ۶۔

[2] المائدة: ۶۔

[3] صحیح البخاري ، التیمم : ۲۴۴۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:65

محدث فتویٰ

تبصرے