سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(19) تیمم اور اس کا طریقہ

  • 20280
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-05
  • مشاہدات : 3046

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ہمارے ہاں تیمم اور اس کی مشروعیت و طریقہ کے متعلق بہت سے شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں ، براہ کرم کتاب و سنت کی روشنی میں اس کے متعلق وضاحت کر دیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

 تیمم کا لغوی معنی قصدو ارادہ ہے اور اصطلاحی معنی یہ ہے کہ چہرے اور ہاتھوں پر پاک مٹی سے مخصوص طریقہ کے ساتھ مسح کرنا ۔ شرعی عذر کے وقت تیمم وضوء کا بدل ہے اور اس سے ہر وہ کام لیا جا سکتا ہے جو وضوء سے لیا جاتا ہے۔ تیمم امت محمدیہ کے لئے ایک خصوصی عطیہ ہے جو کسی دوسری امت کے حصہ میں نہیں آیا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

’’ میرے لئے زمین مسجد اور ذریعہ طہارت بنا دی گی ہے۔ ‘‘[1]

ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ زمین کی مٹی ہمارے لئے ذریعہ طہارت قرار دی گئی ہے۔ ‘‘[2]

درج ذیل صورتوں میں تیمم مشروع ہے:

٭سفر یا اقامت میں پانی نہ ہونا یا تلاش کے باوجود میسر نہ آنا۔

٭جب کوئی بڑھاپے یا بیماری کی وجہ سے پانی کے استعمال میں اس قدر بے بس ہو کہ حرکت نہ کر سکتا ہو اور نہ کوئی وہاں وضوء کرانے والا ہو، نیز نماز کا وقت فوت ہونے کا اندیشہ ہو۔

٭جب پانی شدید ٹھنڈا ہو اور اس کے گرم کرنے کا کوئی ذریعہ نہ ہو، نیز ٹھنڈا پانی استعمال کرنے سے بیمار ہونے کا خدشہ ہو۔

٭پانی اتنی قلیل مقدار میں ہو جس سے اعضاء وضوء نہ دھل سکتے ہوں۔ حدیث میں ایک مد پانی سے وضوء کرنے کا ذکر ہے، اس سے کم پانی قلیل ہی شمار ہو گا۔

ایسے حالات میں اگر زمین کی سطح پر صاف مٹی ہو، ریتلی زمین اور شور کلر والی زمین بھی اس حکم میں ہے، سب سے تیمم کیا جا سکتا ہے۔ کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ’’ پاک مٹی سے تیمم کرو۔‘‘ عام ہے، نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام جس قسم کی زمین پر نماز ادا کرتے وہیں مٹی یا ریت پر ہاتھ مار کر تیمم کر لیا کرتے تھے، وہ اپنے ساتھ مٹی کے ڈھیلے رکھنے کا اہتمام نہیں کرتے تھے۔

تیمم کرنے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے نیت کرے اور بسم اللہ پڑھے پھر دونوں ہاتھ مٹی پر ایک بار مارے اور پھونک مار کر غبار کو اڑا دے، اس کے بعد دونوں ہاتھ چہرےپر پھیر لے اور پھر ہتھیلیوں پر بھی مسح کرے ، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تجھے صرف اتنا ہی کافی تھا کہ تو اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پر مارتا پھر ان میں پھونکتا ، اس کے بعد ان کے ساتھ اپنے چہرے اور اپنی ہتھیلیوں کا مسح کرتا۔ [3]

اپنے ہاتھوں کو کہنیوں یا بغلوں تک پھیرنے کی ضرورت نہیں، اگرچہ بعض روایات میں کہنیوں اور بغلوں کے الفاظ بھی ہیں لیکن وہ قابل حجت نہیں۔‘‘ 

صحیح کی روایت میں تیمم کے لئے ایک ہی مرتبہ زمین پر مارنے کا حکم ہے۔ [4]

لیکن یہ روایت علی بن طبیان راوی کی وجہ سے ضعیف ہے۔[5]

واضح رہے کہ اگرچہ تیمم کرنے کے بعد نماز پڑھنے سے پہلے پانی میسرآجائے تو تیمم ختم ہو جاتا ہے اور وضوء کر کے نماز پڑھنا ہو گی۔ ہاں اگر نماز پڑھ لی ہے اور بعد میں پانی ملا ہے تو ادا کردہ نماز کو دوبارہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ، جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے: ’’ دو آدمی سفر میں نکلے اور جب نماز کا وقت ہوا تو ان کے پاس پانی نہیں تھا لہٰذا انہوں نے پاک مٹی سے تیمم کر لیا اور نماز ادا کر لی پھر انہیں نماز کے وقت میں ہی پانی مل گیا، ان میں سے ایک نے وضوء کر کے دوبارہ نماز پڑھ لی جبکہ دوسرے نے ایسا نہ کیا۔ اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا ماجرا بیان کیا تو جس شخص نے نماز دوبارہ نہ پڑھی تھی اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کہ تم نےسنت کو حاصل کر لیا اور تمہیں تمہاری نماز کافی ہو گئی اور دوسرے شخص سے فرمایا کہ تیرے لئے دوگنا اجر ہے۔[6]

اگر کسی کو نماز کے وقت پانی نہ مل سکے اور نہ ہی مٹی دستیاب ہو تو وہ طہارت کے بغیر ہی نماز ادا کرے۔ اگرچہ ایسا امکان بہت کم ہوتا ہے تاہم امید ہے کہ ایسے حالات میں بغیر وضوکے نماز ادا کرنے میں کوئی حرج نہیں، امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی رجحان معلوم ہوتا ہے۔ [7]


[1] صحیح البخاري، التیمم : ۳۳۵۔

[2] صحیح مسلم، المساجد : ۵۲۱۔

[3] مسند أحمد ص ۲۶۵ ج ۴۔   

[4] صحیح البخاري، التیمم : ۳۳۸۔

[5] تلخیص الحبیر ص ۱۵۱ ج۱۔

[6] سنن أبي داؤد ، الطھارة : ۳۳۸۔

[7] صحیح البخاري ، التیمم باب ۲۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ اصحاب الحدیث

جلد4۔ صفحہ نمبر:58

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ